آپریشن ”بنیان مرصوص“

شہادت مطلوب و مقصود و مومن۔۔
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔۔

گزشتہ ہفتے کا کالم لکھا تو یہ تو اندازہ تھا کہ پاک بھارت جنگ اب ناگزیر ہو چکی ہے،کیونکہ گجرات کے قصائی (معذرت قصائی کا لفظ استعمال کر رہا ہوں، لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کا قتل ِ عام کرنے والا، مسلمانوں کے بچوں کو مارنے والے گجرات کے قصائی کو آخر کس نام سے یاد کریں۔ میں اسے چائے والا نہیں بلا سکتا)۔ گزشتہ کالم جب لکھا تو نظر آرہا تھا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر دے گا اور پھر منگل کی شب وہی ہوا۔ بھارت نے اپنے طیاروں سے پاکستان پر میزائل داغے ان میزائلوں نے مریدکے، بہاولپور، کوٹلی، آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں گھروں، مساجد اور مدرسوں کو نشانہ بنایا۔ رات کی تاریکی میں کئے گئے اس بزدلانہ حملے میں 31 بچے، خواتین، مرد شہید ہوئے۔ پاکستانی قوم پریشان ہوئی کہ یہ میزائل اچانک آگرے اور ہم کچھ کیوں نہ کر سکے، لیکن ایسا نہیں تھا حملہ کرنے والے بچ کر نہیں جا سکے تھے۔ ان کو ان کے گھر کے اندر ہمارے فضائی محافظوں کی طرف سے داغے گئے میزائلوں نے مار گرایا۔ ہمارے فضائی محافظ ہمارا دفاع کرنے کے لئے فضاؤں میں چوکس موجود تھے۔ ہمارے فضائی محافظوں نے چینی ساختہ جے ایس 10 اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں سے دشمن کو دھول چٹائی۔ فضائی محافظوں نے صرف بھارت نہیں پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا کہ پاکستان نے چینی اور پاکستانی ساختہ طیاروں سے فرانس کے جدید ترین رافیل، روس کے سخوئی اور مگ 29 جیسے طیارے گرا ڈالے، لیکن یہ ”سچائی“ ماننے پہ کوئی تیار نہیں تھا۔ بھارت نے اپنا نقصان قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ ملبہ ان کی اپنی ”حدود“ میں گرا تھا۔ پاکستان کہتا رہا ہم نے ”مار گرایا ہے“۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمارے اپنے ملک میں عام آدمی نے کیا ماننا تھا کہ وہ جو رائے عامہ تیار کرتے ہیں انہیں بھی یقین نہیں ہو رہا تھا اور یہ ان کے چہروں پر بھی لکھا تھا، لیکن ایسا ہوا تھا اور بعد میں ثابت بھی ہوا،بلکہ پوری دنیا نے بھی تسلیم کر لیا۔ بھارت نے اگلے دن نئے حملوں کا آغاز کیا اور اس بار ڈرون پاکستان بھیجے گئے۔ لاہور، کراچی سے لے کر ہر بڑے شہر میں ان اسرائیلی ڈرونز نے ”انٹری ڈالی“۔ یہ ڈرونز پاکستانی دفاعی تنصیبات کے قریب پہنچنے کے چکر میں تباہ ہوئے۔ یہ تمام ڈرونز بھارت کے قریب ترین دوست اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اسرائیل کے تیار کردہ ہیروپ ڈر ونز تھے۔ ایک دن اور گزرا پاکستان میں سوشل میڈیا پر جو بیہودہ گفتگو اور جو الفاظ استعمال کیے گئے اس نے مجھ جیسے لوگوں کے دِل چھلنی کر ڈالے۔ کہا گیا کہ پاکستان جھک گیا، پاکستان بک گیا، ”ہم نے“ مودی کو اپنا دِل ٹھنڈا کرنے کا موقع دیا کہ آؤ ہمیں مار لو ہم کچھ نہیں کریں گے، لیکن مجھ جیسے بوڑھے لوگ پُر اُمید تھے کہ ہمارا وقت آنے والا ہے اور پھر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بھارت نے ایک بار پھر ایک بجے رات میزائلوں سے حملہ کر دیا۔ اس بار یہ حملہ نور خان ایئر بیس پنڈی، شورکوٹ ایئر بیس اور مرید بیس چکوال پر تھا، مگر ہمارا فضائی دفاعی نظام ہمارے دوست چین کی مدد سے اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ ہم نے تقریبا تمام میزائلوں کو منزل پر پہنچنے سے پہلے مار گرایا۔ میزائل تو گرے، مگر کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا اور پھر پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے قومی و نجی ٹیلی ویژن چینلز پر وہ اعلان کیا،جس کا قوم کو انتظار تھا اور وہ اعلان تھا کہ ہمارے ضبط کی انتہاء ہو گئی ہے اب تیار رہو۔ اِس اعلان کے بعد اذانِ فجر کے ساتھ ہی آپریشن ”بنیان مرصوص“ شروع ہوا۔ ”نعرہ تکبیر – اللہ اکبر“ کی صدا گونجی اور بھارت پر ”فتح ون میزائل“ داغ دئیے گئے، یعنی ابتدا ہی فتح کے نام سے ہوئی۔ فتح ون میزائل 140 اور فتح ٹو 400 کلومیٹر تک مار کرتے ہیں۔ فتح ون اور ٹو انتہائی جدید ترین سپر سونک میزائل ہیں، جبکہ ان کی اگلی نسل فتح تھری اور فتح فور پر کام جاری ہے، فتح فور 700 کلومیٹر تک مار کرے گا۔

پاکستان نے بھارت کے خلاف لانچ کیے گئے اس آپریشن کا نام آپریشن ”بنیان مرصوص“ رکھا۔ یہ نام قرآن پاک کی سورہ ئالصف کی چوتھی آیت سے لیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہو جاؤ۔ بنیان مرصوص کے لفظی معنی ”آہنی دیوار“ ہیں پھر ہفتے کی صبح پوری قوم آہنی دیوار بن چکی تھی۔ لوگ سڑکوں پہ نکل آئے نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر سے فضا گونجنے لگی۔ عوام کو اطمینان ہوا کہ ہم نے سفاک دشمن بھارت کو سبق سکھانے کے لئے اس پر حملہ کر دیا ہے اور اب اسے بھرپور سبق سکھائیں گے۔ تین دن سے قوم جس انتظار میں تھی وہ لمحہ آچکا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ اچھی چیز نہیں ہے۔ جنگ میں انسان مرتا ہے، انسانیت مرتی ہے۔ لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ لاشیں اٹھانے والے نہیں ہوتے، لیکن سچ یہ بھی ہے کہ جنگ میں اگر آپ اپنی طاقت نہ دکھائیں تو پھر دشمن آپ کو کچل دیتا ہے۔

آپ کے بچوں کو مارا جاتا ہے، بیویاں، بیٹیاں، بہنیں اٹھا لی جاتی ہیں،کیونکہ دشمن کسی بھی ذات نسل کا ہو بہت سفاک، گھٹیا اور ظالم ہوتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ اب تلوار، گھوڑوں، نیزوں، ڈھال والی جنگ کا زمانہ نہیں رہا، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ عورت اور خاص طور پر دشمن کی عورت آج بھی مال غنیمت ہی سمجھی جاتی ہے آج بھی پہلا ظلم عورت پر اور پہلی لاشیں بچوں کی ہوتی ہیں۔ بھارت کے پہلے حملے میں سب سے بڑا نشانہ ہمارے بھی معصوم بچے تھے جو گھروں میں سوتے ہوئے بھارتی فضاؤں سے داغے جانے والے میزائلوں کا نشانہ بنے تھے۔ بڑی تکلیف ہوئی تھی ان معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر، لیکن وہ تکلیف اس وقت کافی حد تک کم ہوئی جب آپریشن ”بنیان مرصوص“ شروع ہوا اور فتح میزائل پھینکنے والی بیٹری کا وہ ٹرک جس سے پہلا میزائل داغا گیا اس پہ ان تمام بچوں کے نام لکھے تھے جن کو بھارت نے منگل کی رات شہید کیا تھا۔ ہم نے دشمن کو بتا دیا کہ ہم اپنے شہیدوں کو نہ بھولتے ہیں نہ دشمن کو معاف کرتے ہیں۔

پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ٹھکائی سے ابھی دِل نہیں بھرا تھا۔ بھارتی میڈیا کی چیخیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں کہ وہی امریکہ جو ایک دن پہلے ”بھارتی برتری“ دیکھ کر مداخلت نہیں کرنا چاہ رہا تھا اپنے ”پٹھے“کو پٹتا دیکھ کر ”رِنگ“ میں کودا اور جنگ بندی کرادی۔ آج کارگل میں واپسی کے وقت بھارتیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے سینکڑوں فوجیوں اور مجاہدین کی شہادت سے گزشتہ 27 برسوں سے رسنے والے زخموں پر آپریشن ”بنیان مرصوص“ نے مرہم رکھ دیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں