آپ اپنی دْشمن سرکار

ہمارا خیال تھا اپنے مطالبات منوانے کے لئے حکومت کے خلاف جو فائنل کال پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے عوام کو دی ہے اْس میں پی ٹی آئی پورا پاکستان بند کر دے گی، یہ کام پی ٹی آئی کے بجائے حکومت نے خود کر دیا جس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے پی ٹی آئی نے حکمرانوں کے خلاف فائنل کال دے کر پورا پاکستان بند نہیں کیا بلکہ حکمرانوں نے پی ٹی آئی کے خلاف فائنل کال دے کر پورا پاکستان بند کر دیا ہے، اب پی ٹی آئی کو چاہئے وہ حکمرانوں سے گزارش کرے ’’آپ پاکستان کھول کر عوام کی اذیتیں ختم کر دیں ہم آپ کے مطالبات ماننے کے لئے تیار ہیں‘‘، سرکار مخالف سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے احتجاج کرتی رہتی ہیں، حکومتیں اْن سے نمٹنے کے لئے اقدامات بھی کرتی رہتی ہیں، سیانی حکومتیں ایسی حکمت عملی اپناتی ہیں جس سے مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے اور عوام ذلتوں اور اذیتوں سے بچ جائیں، یہ پہلی حکومت ہے جو عوام کو اذیتیں دے کر خوش ہوتی ہے، دوسری طرف عوام بھی ان اذیتوں پر شاید خوش ہی ہوتے ہیں اور کوئی ایسا احتجاج نہیں کرتے جس کے بعد حکمران عوام کو اذیتیں دینے کا سلسلہ مستقل طور پر بند کر دیں، حکومت یا ریاست ایک سیاسی جماعت کے خلاف جتنے اقدامات کر رہی ہے اْس کا مسلسل فائدہ اْسی سیاسی جماعت کوہو رہا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کو قبل از وقت ختم کر کے جو فائدہ پی ٹی آئی یا عمران خان کو جنرل باجوہ نے پہنچایا تھا اْس سے زیادہ فائدے پی ٹی آئی یا عمران خان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر کے موجودہ حکمرانوں اور اْن کے مالکان نے عمران خان کو پہنچا دئیے ہیں، ایک طرف حکومتی اور ریاستی بے وقوفیوں سے عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی مزید اتنی گرتی جا رہی ہے آج اگر اس مْلک میں منصفانہ انتخابات کروانے کا معجزہ ہو جائے موجودہ حکمران پورے اس یقین کے ساتھ خودہی الیکشن نہیں لڑیں گے کہ اْنہوں نے جیتنا تو ہے نہیں، آج میں ’’وزیر برائے خالی خزانہ‘‘ محمد اورنگ زیب کا ایک بیان کسی اخبار میں پڑھ رہا تھا فرماتے ہیں’’اپوزیشن کی احتجاج کی کال سے ملک کو روزانہ ایک سو نوے ارب کا نقصان ہوتا ہے‘‘،’’وزیر برائے خزانہ‘‘ کو چاہئے اپنے مالکان کو سمجھائیں وہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کم کر کے مفاہمت کا کوئی راستہ نکالیں تاکہ ملک ایک سو نوے ارب روزانہ کے نقصان سے بچ جائے، ویسے ہمارے’’وزیر برائے خالی خزانہ‘‘ کسی روز یہ بھی بتا دیں اْن کی اپنی نااہلیوں سے یا جو حکمران اس وقت مْلک پر مسلط کروا دئیے گئے ہیں اْن کی نااہلیوں سے مْلک کو کتنے سو ارب کا نقصان روزانہ ہو رہا ہے ؟ نااہلی کی ایک انتہا یہ بھی ہے صرف ایک سیاسی جماعت کے احتجاج کی کال سے ان کی ہوا اس لیول پر اْکھڑ جاتی ہے پورا مْلک انہیں بند کرنا پڑ جاتا ہے، پچھلے تین روز سے عوام جتنی پریشانیوں اذیتوں ذلتوں اور تکلیفوں کا شکار ہیں اْس کی مثال نہیں ملتی، ریلوے اور پی آئی اے کا سارا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، ساری سڑکیں بند ہیں، پاکستان کو ’’کنٹینرستان‘‘ بنا دیا گیا ہے، اب شاید ’’قبرستان‘‘ بنانے کی تیاری ہے، شادی کی سینکڑوں تقریبات ملتوی ہو چکی ہیں، حتی کہ جنازوں کے وقت بھی کئی کئی بار تبدیل کرنا پڑ رہے ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق گزشتہ دو روز میں کئی مریض اب تک ایمبولینسوں میں ہی انتقال فرما گئے ہیں کیونکہ اْنہیں ہسپتال پہنچنے کے لئے راستے ہی نہیں ملے، سیالکوٹ کی ایک فیملی نے 23 نومبر کی رات دو بجے لاہور ائر پورٹ سے کینیڈا کے لئے سفر کرنا تھا، وہ پوری کوشش کے باوجود لاہور نہیں پہنچ سکی، انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہو گیا، اس سے بھی بڑا واقعہ یا المیہ یہ ہے میں نے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے اْن کی مدد کے لئے کہا وہ مجھ سے پوچھنے لگے’’کہیں اس فیملی کا تعلق پی ٹی آئی سے تو نہیں ہے ؟‘‘، اب شاید یہ بھی ہوا کرے گا سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں سیریس مریضوں کا علاج شروع کرنے سے پہلے اْن کے عزیز و اقارب سے’’حلف نامہ‘‘ لیا جائے کہ ان مریضوں کا تعلق پی ٹی آئی سے تو نہیں ہے ؟‘‘، تھانوں میں اپنے خلاف ظلم و زیادتی کی کوئی ایف آئی آر کٹوانے جائے پہلے تین چار روز تک اْس کی انکوائری کی جائے گی اس درخواست دہندہ کا تعلق کہیں پی ٹی آئی سے تو نہیں ہے ؟ اگر پی ٹی آئی سے تعلق ثابت ہو جائے تو اْس کے خلاف ہونے والی زیادتی یا ظلم میں خود اْسے ہی ملزم ٹھہرا دیا جائے، یہ کام اٹک میں ممکن ہے شروع ہو چکاہو جہاں کے ڈی پی او کی اگلے روز سوشل میڈیا پر بڑھکیں سْن کر میں سوچ رہا تھا یہ ڈی پی او ہے یا نون لیگی غنڈہ ہے جو اپنے مالکان کو خوش کرنے کی کوشش میں اپنے منصب کی ساری عزت آبرو داؤ پر لگا رہا ہے، اْمید ہے بہت جلد نون لیگ کے سربراہ کی سفارش پر اْسے بھی کسی بڑے شہر کا ڈی آئی جی آپریشنز لگا دیا جائے گا اور پھر وہ بھی سینہ تان کے اپنے بارے میں یہ’’مشہوریاں‘‘ کروائے گا ’’وہ سیاسی سفارشوں پر ایس ایچ او نہیں لگاتا‘‘، ہمارے سارے سیاسی پولیس افسر سیاسی سفارشیں صرف اپنی اچھی تقرریوں و تبادلوں کے لئے ہی جائز سمجھتے ہیں، بزدار کے دور میں تقرریوں تبادلوں کی جو منڈی لگی تھی ایک ایس ایس پی نے وہاں سے ڈی پی او کا عہدہ خریدنے کی کوشش کی مگر ریٹ طے نہ ہوسکا، وہ اب بھی ایس ایس پی ہے مگر ڈی آئی جی کے عہدے پر براجمان ہے، اس بار یہ عہدہ اْس نے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے ساتھ ذاتی تعلق کی بناء پر مفت حاصل کر لیا ہے، اسی طرح وفاقی دارلحکومت میں تعینات کچھ کرپٹ پولیس افسران اپنے مالکان یا آقاؤں کو ہر بھونڈے انداز میں خوش کر کے اپنے عہدے بچانے کے لئے اپنے اپنے منصبوں کی جس انداز میں پامالی کر رہے ہیں آٹے میں نمک کے برابر گریس فْل پولیس افسران اب ان منصبوں پر بیٹھنا اپنی توہین سمجھیں گے، جہاں ماتحتوں سے اْن کے شوکاز نوٹسز فائل تک کرنے کے پچاس پچاس ہزار روپے وصول کئے جا رہے ہوں، حرام کمائی کے سارے راستے اور دروازے کھول دئیے گئے ہوں اور اس پر کوئی اْن سے حساب لینے والا نہ ہو، اس کے نتیجے میں اْن سے کوئی کام بھی لیا جا سکتا ہے، بوٹ پالش کروائے جا سکتے ہیں، حتی کہ مین ہولوں کی صفائی تک کروائی جا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں