آپ کا لیڈر کیسا اور آپ کیسے؟ فیصلہ آپ کا

اگر ہم ماضی اور حال کی سیاست کا بغور تجزیہ کریں تو دو قسم کے لیڈر سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جو عوام کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اپنی ذات کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ اسی طرح، سیاسی کارکنوں کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو نظریاتی اصولوں پر کاربند رہ کر اپنی پارٹی اور عوام کے لیے مخلصانہ خدمات انجام دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اندھی عقیدت کے ساتھ اپنے لیڈر کے ہر اقدام کو درست مانتے ہیں۔ ان دو اقسام کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ یہ صرف قیادت کا نہیں بلکہ معاشرتی ترقی یا زوال کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔

ایک حقیقی لیڈر عوام کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کی قیادت کا محور عوام کی خدمت، انصاف کی فراہمی، اور ترقی کے لیے مخلص کوششیں ہوتی ہیں۔ ایسا لیڈر اپنی ذات کو پیچھے رکھ کر عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ نہ صرف عوامی مسائل کو قریب سے سمجھتا ہے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے ان کے حل کو یقینی بناتا ہے۔

حقیقی لیڈر اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں شفافیت رکھتا ہے اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ ان کے اقدامات میں دور اندیشی ہوتی ہے، اور وہ ہمیشہ طویل المدتی قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ وہ جذباتی نعروں اور وعدوں کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایسا لیڈر معاشرتی اتحاد، انصاف، اور برابری کو فروغ دیتا ہے۔ وہ تمام طبقوں، مذاہب، اور قومیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہے اور ہر قسم کے تعصب اور نفرت سے بالاتر ہو کر محبت اور ہم آہنگی کو پروان چڑھاتا ہے۔ وہ قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے اور اپنی ذات کو اداروں سے بڑا بنانے کی بجائے اداروں کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کی توجہ اپنی شخصیت کے بجائے اپنی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ وہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ٹیم اور عوام کے ساتھ بانٹتا ہے اور ہمیشہ عملی اقدامات کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔ ایسا لیڈر ہی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے اور جمہوریت، انصاف، اور ترقی کو فروغ دیتا ہے۔

خود پسند یا نرگسیت پسند لیڈر ہمیشہ اپنی ذات کو مرکزیت دیتا ہے۔ اس کی گفتگو اور تقاریر میں “میں” اور “میری” کا حد سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، جس سے اس کی خود پسندی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے لیے ذاتی مفادات، شہرت، اور اقتدار عوامی فلاح و بہبود سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایسے رہنما اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔

ایسے لیڈر تنقید برداشت نہیں کرتے اور اسے دشمنی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی شخصیت کو بڑھانے کے لیے اداروں کو کمزور کرتے ہیں اور جمہوری اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ان کی قیادت جذباتی نعروں اور جھوٹے وعدوں پر مبنی ہوتی ہے، اور وہ عوام کو وقتی فائدے دے کر دھوکہ دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔

خود پسند لیڈر عوامی مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے معاشرتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے۔ وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے قانون کو بالائے طاق رکھتا ہے اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے رہنما اپنے ارد گرد صرف وہی افراد رکھتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملائیں، جبکہ آزاد سوچ رکھنے والوں کو دور کر دیتے ہیں۔

سیاسی کارکن وہ ہیں جو نظریاتی اصولوں اور عوامی خدمت کے لیے مخلصی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی جماعت یا نظریے کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے کارکن رہنما کو بھی تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں اگر وہ عوامی مفادات کے خلاف کام کرے۔ ان کی وفاداری کسی شخصیت کے بجائے اصولوں اور نظریات سے ہوتی ہے۔

دوسری طرف، اندھے پیروکار جذباتی وابستگی اور شخصیت پرستی کے دائرے میں قید ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رہنما کی ہر بات کو درست مانتے ہیں، چاہے وہ حقائق کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے پیروکار تنقیدی سوچ سے گریز کرتے ہیں اور اپنی وفاداری کو رہنما کی ذات سے منسلک رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ وہ رہنما کے غلط اقدامات کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔

یہ سوال اہم ہے کہ آپ کس قسم کے لیڈر کو مانتے ہیں اور آپ خود کس قسم کے سیاسی کارکن یا پیروکار ہیں۔ کیا آپ ایک ایسے لیڈر کو سپورٹ کرتے ہیں جو عوام کی خدمت، شفافیت، اور انصاف کو اپنا اصول سمجھتا ہے؟ یا آپ کا جھکاؤ ایک ایسے رہنما کی طرف ہے جو ذاتی مفادات کے لیے عوام کو اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے؟

اسی طرح، آپ کی اپنی حیثیت بھی اہم ہے۔ کیا آپ ایک باشعور سیاسی کارکن ہیں جو اپنے نظریے اور اصولوں کے لیے مخلص ہے؟ یا آپ ایک اندھے پیروکار ہیں جو جذباتی وابستگی کے تحت کسی لیڈر کی غلطیوں کو نظرانداز کر دیتا ہے؟

قوموں کی تقدیر ان کے رہنما اور عوام کے کردار پر منحصر ہوتی ہے۔ حقیقی لیڈر قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے، جبکہ خود پسند رہنما قوم کو زوال کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہی اصول عوام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایک باشعور عوام جمہوریت، انصاف، اور ترقی کو فروغ دیتا ہے، جبکہ اندھے پیروکار ایک نظام کو کمزور کرتے ہیں۔

سوچیں، سمجھیں، اور فیصلہ کریں کہ آپ کس قسم کے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ خود کس قسم کے سیاسی کردار کے مالک ہیں۔ آپ کا لیڈر کیسا؟ اور آپ کیسے؟ فیصلہ آپ کا!

اپنا تبصرہ لکھیں