جونہی مجھے خبر ملی کہ برادر مسلم ملک تضادستان میں بالآخر حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات شروع ہو گئے ہیں تو میں رہ نہ سکا اور فوراً ٹکٹ کٹا کر خود خوشی کے ان لمحات کا مشاہدہ کرنے آ پہنچا۔ آپ مجھے بھولے تو نہیں ہونگے میں چار سال پہلے بھی آیا تھا اس وقت یہاں کا بادشاہ ’’خان‘‘ تھا اس کا طوطی بولتا تھا۔ میں اصل میں شمس الدین تنجی المعروف ابن بطوطہ کی آٹھویں پشت سے ہوں اس لئے ابن بطوطہ ثانی کہلاتا ہوں کئی بار ابن بطوطہ دوئم کا نام بھی دے دیا جاتا ہے۔ ابن بطوطہ (1304تا 1369ء) ہندوستان اور آج کے تضادستان کے علاقوں میں آیا تھا اس کے سفرنامے عجائب الاسفار میں یہاں کے حالات وواقعات کا ذکر اب بھی محفوظ ہے۔ ابن بطوطہ اس وقت کے ہندوستان میں آیا تو محمد شاہ تغلق سر یر آرائے سلطنت تھا۔ محمد شاہ تغلق نے کئی شہر بسائے کئی علماء کو قتل کیا اشیاء کو سستا کرنے کیلئے اقدامات کئے وہ سخت اور ظالم حکمرا ن تھا مگر سلطنت کے ہر کونے کے بارے میں باخبر رہتا تھا۔ میں ابن بطوطہ ثانی 4سال پہلے آیا تو ’’خان‘‘ نے میڈیا کا ناطقہ بند کر رکھا تھا اس وقت کی مقتدرہ بھی اسکی پشت پناہ تھی خان کو دیوتا کا درجہ حاصل تھا ۔میں اب آیا ہوں تو یہاں سب کچھ بدل چکا ہے۔ خان کی جگہ شاہ باز نے لے لی ہے۔ آج کی مقتدرہ خان کے خلاف ہے غرضیکہ چار سال میں یہاں کی دنیا الٹ پلٹ ہو چکی ہے۔ میں نے چار سال پہلے اپنی اہلیہ کو یہاں سے مراکش خطوط روانہ کئے تھے، وہ خطوط جن میں تضادستان کے حالات مذکور تھے مراکش میں بہت مشہور ہوئے۔ میں آج پھر اہلیہ کو یہاں کے حالات لکھ کر بھیج رہا ہوں تاکہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہیں۔ میں نے جو مختلف مشاہدات کئے ہیں ،میں ان کو موضوعات کے حساب سے اہلیہ کو روانہ کر رہا ہوں۔
تضادستانی مذاکرات
آج کل تضادستان میں مذاکرات کی میز بچھی ہوئی ہے کہا جا رہا ہے کہ برسوں سے جو نفرتیں اور عداوتیں بھڑکائی جا رہی تھیں ان کا خاتمہ ہونا چاہئے مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ دلوںکا میل ابھی تک صاف نہیں ہوا، ایک دوسرے کیخلاف الزامات اور گالیوں کا اسلحہ تیار ہے انصافی سوشل میڈیا کا گالی بریگیڈ نہیں چاہتا کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں وہ یہی چاہتا ہے کہ لڑائی اور کشمکش جاری رہے تاکہ انہیں ڈالر ملتے رہیں۔ خان چاہے جیل میں رہے ان کا کاروبار تو چلتا رہے۔ بظاہر سپیکر ایاز صادق سے بہتر مذاکرات کوئی نہیں کرا سکتا وہ انتہائی شائستہ اور جمہوری مذاق کے آدمی ہیں خان کے کلاس فیلو بھی رہے اور ان کے سیاسی ہم سفر بھی رہے لیکن پھر نون میں چلے گئے اور اب نونیوں کی آنکھ کا تارہ ہیں۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھے سب لوگ بڑے تجریہ کار ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ ان کے پاس نہ اختیار ہے، نہ مینڈیٹ۔ میرے مورث ِاعلیٰ ابن بطوطہ نے عجائب الاسفار میں لکھا ہے کہ محمد شاہ تغلق بڑا سخی تھا انصاف اور خلعتیں مرحمت کرکے اپنے امراء کو خوش رکھتا تھا لیکن جس سے ناراض ہوتا تھا اس پر اسے رحم نہیں آتا تھا۔ شیخ ہود ملتانی پر خوش ہوا تو اسے ملتان میں شیخ رکن ِعالم کی گدی پر بٹھا دیا، ناراض ہوا تو اسے قتل کروا دیا۔ شیخ شہاب الدین کو دلی میں جاگیر بخشی بہت احترام کرتا تھا مگر ناراض ہوا تو گوبر کھلایا اور پھر قتل کروا دیا۔ میں نے مشاہدہ کیا ہےکہ یہاں کی ریاست اب بھی کسی پر مہربان ہوتی ہے تو اسے تخت پر بٹھا دیتی ہے، ناراض ہوتی ہے تو پھر اسے معافی نہیں ملتی۔ مذاکرات ضرور ہو رہے ہیں مگر معافی تلافی کا اب بھی امکان نہیں۔
تضادستان کے سماجی حالات
میں ابن بطوطہ ثانی تضادستان کے لوگوں کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا لیکن یہاں کے لوگ مجموعہ اضداد ہیں، ہر ایک تضادات کی بیماری میں مبتلا ہے، کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ ہر کوئی امیر ہونے کا خواہشمند ہے مگر امیروں سے نفرت کرتا ہے۔ ہر کوئی اقتدار کا پجاری ہے مگر اہل اقتدار کا مخالف ہے۔ ہر کوئی امریکہ یورپ کا ویزا چاہتا ہے مگر بات کرنی ہو تو انکے خلاف کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ سیاست کو دن رات برا بھلا کہتے ہیں مگر دن رات کا اکثر حصہ سیاسی مباحث میں خرچ کرتے ہیں۔ گانے اور رقص کے دلدادہ ہیں مگر جو کوئی کرے اسے ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ ہرکوئی دعویٰ کرتا ہے کہ میرے سوا سب ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں لیکن جب اسے کوئی حیثیت ملتی ہے تو سب سے زیادہ ملک کا نقصان وہی کرتا ہے ۔ ہر کوئی غزہ، فلسطین اور کشمیر میں ظلم پر نوحہ خواں ہے مگر عملی طو رپر کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔ زکوۃ دینے میں سب سے آگے ہیں مگر ملک کو چلانے کیلئے واجب ٹیکس دینے کو تیار نہیں ،ہر کوئی ٹیکس میں ہیرا پھیری کرنے کو جائز سمجھتا ہے، ریاست کی ہر سہولت سے فائدہ اٹھاتا ہے، ریاست کی سڑکیں، بجلی اور پارکوں سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر ہر کوئی کہتا ہے کہ ریاست ہمارے لئے کرتی کیا ہے؟ تضادستان کے لوگ بہت ہی ناشکرے ہیں ہر ایک کے حالات پچھلے دس پندرہ سال میں بہت بہتر ہو گئے ہیں پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں، بہترین کپڑے پہنتے ہیں ،کھلے اور شاندارگھروں میں رہتے ہیں مگر سب کہتے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے معیشت زوال کاشکار ہے یہ ناشکرا پن نہیں تو اور کیا ہے؟
علماء و مشائخ کی صورتحال
محمد شاہ تغلق (اصل نام جونہ خان) کے عہد میں علماء و مشائخ کا بہت احترام تھا، ابن بطوطہ نے بطورِ خاص ریاست کی علماء پر مہربانیوں کا ذکرکیا ہے جبکہ میں ابن بطوطہ ثانی آج بھی یہی دیکھ رہا ہوں کہ علماء ریاست پر چھائے ہوئے ہیں، ریاست اہل سیاست سے نہیں ڈرتی صرف اہل تجارت اور اہل مذہب سے ڈرتی ہے۔ یہ دونوں طبقات اپنی طاقت سے بخوبی واقف ہیں اس لئے ریاست کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات منوا لیتے ہیں لیکن جس طرح عثمانی سلطنت کا زوال سائنس اور ٹیکنالوجی کو رد کرکے ہوا تضادستان میں بھی انٹرنیٹ پر پابندیوں کو بڑے بڑے علماء کی حمایت حاصل ہے، جس سے ریاست پسماندہ ہی رہےگی۔
اہل سیاست و صحافت کا احوال
تضادستان کے سیاست دان اس وقت مکمل بے بسی کا شکار ہیں تواہل سیاست اور صحافت بھی ایک فکری تقسیم کا شکار ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ دونوں کے آئیڈیلز اور ہیرو بھی مختلف ہیں ۔سیاست اور صحافت کی آزادی کے بارے میں بھی لوگ متضاد نظریات کے حامی بن چکے ہیں اہل سیاست آپس میں دست وگریباں ہیں تو اہل صحافت بھی اسی صورتحال کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہتے تھا کہ یہ آزادی کے آئیڈیل پر متحد ہو جاتے مگر یہ اپنے ہی دشمن ہیں ابھی دور دورتک نہ سیاست کو آزادی ملنے کا امکان ہے اور نہ اہل صحافت کو گالی بریگیڈ اور طاقت بریگیڈ کے دبائو سے چھٹکارا ملنے کی امید ہے۔
آخری نتیجہ
700سال پہلے میرا جداعلیٰ ابن بطوطہ یہاں آیا تو تب بھی اس خطے کے لوگ اپنے اختلافات ختم کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے آج میں ابن بطوطہ ثانی بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں کوئی موروثی خرابی ہے کہ یہ لڑائی ختم ہی نہیں کر پاتے ..