اداروں کی لڑائی : ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں!

کیا آپ کے علم میں ہے کہ حکومت اس وقت ایک نئی گیم چلنے کے موڈ میں ہے، وہ گیم یہ ہے کہ اگر اُنہیں آئینی ترامیم لانے میں شکست ہوئی ہے تو اب وہ پارلیمنٹ میں برتری کے لیے مخصوص نشستوں کا سہارالے گی۔ اس کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو پس پشت ڈال کر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے الیکشن ایکٹ 2017ءکا ذکر کیا ہے کہ اور کہا کہ وہ تحریک انصاف کو مخصوص نشسیتں نہیں دیں گے۔ یعنی اب مزید بحران پید اہوگا اور ہم ایک نئی لڑائی کی طرف جا رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں کے حوالے سے رواں سال 12جولائی کو فیصلہ آیا، کہ عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا ۔یہ فیصلہ 8-5کے تناسب سے آیا۔جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس شاہد وحید،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اورجسٹس محمد علی مظہر نے اکثریت میں فیصلہ دیا۔جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔سپریم کورٹ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب،خیبرپختونخوا او ر سندھ میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی جائیں۔اور ابھی گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے 8ججز نے اپنے تفصیلی فیصلے میں اس فیصلے کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دی جائیں۔
آگے چلنے سے پہلے مخصوص نشستوں کے بارے میں بتاتا چلوں کہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن کے ایک فارمولے کے تحت دی جاتی ہیں۔ مثلا قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 70 مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہر3.5 یا 4.5 جنرل نشستوں پر ایک مخصوص نشست ملے گی۔اگر لیکشن 2024کی اگر بات کی جائے تو سنی اتحادکونسل (تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کی گئی۔334 نشستوں کی پارٹی پوزیشن کے مطابق مسلم لیگ ن 123 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بنی ، الیکشن 2024 میں مسلم لیگ ن نے 75 جنرل نشستیں سیٹیں جیتیں، مسلم لیگ ن میں 9 آزاد اراکین شامل ہوئے، اسے خواتین کی 34 اور اقلیتوں کی 5 نشستیں ملیں۔ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 82 ہے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کی مجموعی تعداد 73 ہو گئی ہے، پیپلز پارٹی نے 54 جنرل نشستیں جیتیں، اسے خواتین کی 16 اور اقلیتوں کی 3 نشستیں ملیں ، متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان کی مجموعی تعداد 22 ہے، متحدہ قومی موومنٹ نے17 جنرل نشستیں جیتیں، اسے خواتین کی 4 مخصوص اور ایک اقلیتی نشست ملی ہے، جمعیت علماءاسلام کے ارکان کی مجموعی تعداد 11 ہے، اس نے 6 جنرل نشستیں جیتی ہیں، خواتین کی 4 مخصوص نشستیں اور اقلیت کی 1 نشست حاصل کی ،مسلم لیگ ق کے ارکان کی تعداد 5 ہے، ق لیگ نے تین جنرل نشستیں جیتیں، ایک آزاد رکن پارٹی میں شامل ہوا، خواتین کی مخصوص نشست 1 ملی، استحکام پاکستان پارٹی کے مجموعی ارکان کی تعداد 4 ہے، اس نے تین جنرل نشستیں جیتیں اور خواتین کی ایک مخصوص نشست حاصل کی۔ مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے، مسلم لیگ ضیا کی بھی1، بلوچستان عوامی پارٹی 1، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل 1، نیشنل پارٹی 1 اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بھی 1 نشست ہے،اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد 8 ہے، قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 8 باجوڑ میں الیکشن نہیں ہوا جب کہ این اے 146 خانیوال کا نوٹیفیکشن رکا ہوا ہے۔
اب چونکہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص سیٹیں نہیں دی گئی تھیں تو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے عدلیہ سے رجوع کیا جہاں اس کی شنوائی ہوئی۔ اور مذکورہ فیصلہ آیا۔ لیکن تاحال الیکشن کمیشن اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے نہ صرف ہچکچاہٹ کا شکار ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کو طول دینے کے لیے حیلے بہانے بھی تلاش کر رہی ہے، اور ابھی تو گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا ہے ، جس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے اپیل کی ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری قائم رکھتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ آزاد ارکان کو کسی اور پارٹی میں شمولیت کی اجازت دے۔اسپیکر کا خط میں کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایکٹ صدر کے دستخط کے بعد نافذالعمل ہو گیا ہے۔ مزید لکھا ہے کہ وہ آزاد ارکان جو ایک سیاسی جماعت کا حصہ بن گئے، انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔قصہ مختصر کہ قومی اسمبلی کا سپریم کورٹ کے اکثریتی بنچ کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی موڈ دکھائی نہیں دے رہا۔
خیر اب آجائیں حالیہ ترامیم کی جانب تو حالیہ 26ویں آئینی ترامیم میں جس طرح حکومت کو منہ کی کھانا پڑی ہے، وہ بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اس پر تو مولانا فضل الرحمن کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ جنہوں نے ان گھناﺅنی ترامیم کے آگے پل باندھ دیا۔ ورنہ حکمران اتحاد ایسی ترامیم کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے پاس تباہی کے سوا کچھ نہ بچنا تھا۔ لیکن ابھی بھی حکومت ان ترامیم سے پیچھے نہیں ہٹی اور اُس نے پلان بی کو استعمال کرتے ہوئے مخصوص نشستوں کا پتہ کھیلا ہے۔ یعنی اب وہ مخصوص نشستیں لے کر اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے جس کے بعد وہ مطلوبہ قانون سازی کرکے اپنے من پسند لوگوں کو من پسند سیٹوں پر لانے کی کوشش کرے گی۔
لہٰذامیرے خیال میں حالات اس وقت تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ادارے آپس میں اُلجھ پڑے ہیں، مگر نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔ اگر یہ مخصوص نشستیں نہیں دیں گے تو میرے خیال میں ہم ایک بار پھر توہین سپریم کورٹ کے مرتکب ہوں گے اور پھر بحرانی کیفیت میں جائیں گے۔ لیکن ہمیں اس چیز پر غور کرنا چاہیے کہ اگر کسی ملک میں ادارے متصادم ہیں تو پھر آپ کسی خیر کی توقع نہیں کر سکتے۔ الغرض نظام تباہی کی طرف جا رہا ہے، جس کا نقصان یہ ہوگا کہ ملک میں مارشل لاءبھی لگ سکتا ہے، اور اللہ نہ کرے اگر ایسا ہوگیا تو پھر ملک مزید پیچھے چلا جائے گا۔ اور یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو پھر نتیجے کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ میں مارشل لاءکے بارے میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا بھٹو کے دور میں بھی ادارے آپس میں لڑرہے تھے۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں بھی عدلیہ پر حملہ ہو چکا تھا، ادارے آپس میں گتھم گتھا تھے، تب پھر مارشل لاءلگا دیے گئے اور گیم جمہوریت کے ہاتھوں نکل کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلی گئی۔ اور پھر کسی مارشل لاءنے کبھی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، آخر میں وہ ہمیشہ تباہی ہی لاتا ہے۔ جمہوریت میں ہر چیز پر بحث ہوتی ہے، کوئی بھی قانون سازی کرنی ہوتو پارلیمنٹ میں اُسے لایا جاتا ہے۔
جبکہ مارشل لا میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ حالیہ 26ویں ترمیمی بل کو ہی دیکھ لیں، اگر ملک میں مارشل لاءہوتا تو کیا حکومت وقت کو درکار ووٹنگ کے لیے پارٹیوں کی اتنی منت سماجت کرنے کی ضرورت تھی؟ قطعاََ نہیں۔ اُس وقت فرد واحد فیصلے کرتا ہے۔ اور وہ فیصلے خواہ ملک میں روس افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر ملک میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے ہوں یا امریکا افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر طالبان کو مستقل دشمن بنانے کے ہوں، یا ملک میں کلاشنکوف کلچر کے عام کرنے کے ہوں، یا عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنے کے ہوں، یا امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دینے کے ہوں یا کسی بھی قسم کے فیصلے ہوں ،،، وہ سب فرد واحد کی صوابدید پر ہوتے ہیں۔ لہٰذااگر خدا نخواستہ مارشل لاءلگ گیا تو اس کی ساری ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں پر ہوگی، پھر اس میں تحریک انصاف بھی بری الذمہ نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی شریف خاندان اور نہ ہی زرداری خاندان بری الذمہ ہوگا۔کیوں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں اس وقت طاقت ہے، اورانہی کے فیصلوں کی وجہ سے آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں، اور پھر جتنے بھی ججز ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے بجائے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ادوار میں بھرتی ہوئی ہے۔ اور رہی بات نئے چیف جسٹس کی تو 25اکتوبر کے بعد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے، جنہوں نے نومبر 2027تک چیف جسٹس رہنا ہے تو یہی مسئلہ حکومت کو کھائے جا رہاہے۔ کہ وہ ان کے پسندیدہ جج نہیں ہیں۔
بہرکیف اس وقت یہ جو ہر طرف رٹ لگی ہوئی ہے کہ عدلیہ میں تیرے جج اور میرے جج ۔۔۔ اس سے بچنے کے لیے میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ آپ عدلیہ میں بھی سی ایس ایس قسم کا نظام لے آئیں کہ اگر آپ نے جج بننا ہے تو فلاں ٹیسٹ پاس کریں تب ہی آپ کی ترقی ہوگی۔ ایسا کرنے سے ہم بہت سی قباحتوں سے بچ جائیں گے۔ ہم تو چیف آف آرمی سٹاف کے حوالے سے بھی کہتے ہیں کہ موسٹ سینئر آرمی آفیسر کو آرمی چیف لگا دیں۔ ایسا کرنے سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جب ہم اس قابل ہوجائیں کہ ہم نے جمہوریت کو بچانے کے لیے سسٹم کو مضبوط کر لیا ہے ، اور اس پر 20،25سال محنت بھی کی ہے تو پھر آپ قوانین میں جیسی مرضی تبدیلیاں لائیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن فی الوقت اگر آپ یہ کہیں کہ آپ کی نیتوں میں فتور بھی ہو اور پھر آپ ترامیمی مسودہ دکھائیں بھی نہ اور پھر کہیں کہ یہ راتوں رات پاس بھی ہو جائے تو یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔ بقول شاعر
نیت اگر خراب ہوئی ہے حضور کی
گڑھ لو کوئی کہانی ہمارے قصور کی
بہرحال ہمیں اس لڑائی سے جتنا ہو سکے بچنا چاہیے، بھارت کی طرح ہر ادارہ دوسرے ادارے کا احترام کرے ورنہ یہ بات لکھ لیں کہ ہم جہاں آج کھڑے ہیں،،، آنے والی کئی دہائیوں بعد بھی ہم یہی کھڑے ہوں گے!

اپنا تبصرہ لکھیں