فنڈز، وسائل بین الاقوامی سطح کی ٹریننگ کے باوجود پیرس اولمپکس 2024ء میں پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کرنے والے، گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا ماضی بھی کوئی آسان نہیں تھا، ارشد ندیم کو اکثر و بیشتر کھانا خریدنے کے لیے بھی مالی مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔
قومی جیویلن کھلاڑی، ارشد ندیم ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ارشد ندیم کی جہاں صلاحیتوں کی تعریفیں کی جا رہی ہیں، وہیں اُنہیں ’آئرن مین‘ اور ’اسٹیل شولڈر مین‘ کے لقب سے بھی پکارا جا رہا ہے۔پاکستان نیشنل اسپورٹس بورڈ نے جب فیصلہ کیا کہ پیرس اولمپکس کے لیے کن سات کھلاڑیوں کو مالی امداد دی جائے، اس وقت ارشد ندیم اور اِن کے کوچ فنڈز کے لیے سب سے پہلے منتخب ہوئے۔
ارشد ندیم اور اِن کے کوچ سلمان فیاض بٹ خوش قسمت تھے جن کی پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے ذریعے ہوائی ٹکٹوں کی مالی معاونت کی گئی۔پیرس اولمپکس 2024، 8 اگست، جمعرات کی شب کو پنجاب کے گاؤں خانیوال سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان نے اولمپکس، کھیلوں کے سب سے بڑے اسٹیج پر ملک کا پہلا انفرادی گولڈ میڈل جیت کر اپنے ملک کے باسیوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک بھر دی۔
ارشد ندیم جیویلن کا صرف ایک نام نہیں بلکہ خاموش عزم کی ایک مکمل کہانی ہے جس کے خاندان نے ماضی میں اپنی پسند کا کھانا خریدنے کے لیے بھی جدوجہد کی۔ جیولن گولڈ میڈلسٹ، ارشد ندیم کا اپنے بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا اور ان کے والد ایک مزدور تھے۔
غیر ملکی میڈیا ’الجزیرہ‘ نے ارشد ندیم کے بڑے بھائی شاہد عظیم کا انٹرویو شائع کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ جیویلن کھلاڑی کے گھرانے کو اکثر اوقات کھانے لالے پڑے رہتے تھے۔ارشد ندیم کے والد گھر کے واحد فرد تھے جو سات بچوں سمیت اہلیہ کا پیٹ پال رہے تھے، اس خاندان کو سال میں صرف ایک بار، عید الضحیٰ کے موقع پر ہی گوشت کھانا نصیب ہوتا تھا۔
بلند حوصلوں والے ارشد ندیم نے اولمپکس 2024ء کے دوران اپنی ماضی کی تلخ یادوں اور جدوجہد کو نیزے کی نوک پر رکھ کر زمین پر ایک تھرو ماری ہے کہ ان کے ماضی کے تمام مسائل زمین بوس نظر آ رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایتھلیٹس ارشد ندیم نے ماضی میں ایسے حالات بھی دیکھ رکھے ہیں کہ اِن کے پاس نیزہ خریدنے تک کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔
ارشد ندیم کے والد، محمد اشرف نے منگل کے روز اولمپکس کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والے اپنے بیٹے، ارشد ندیم سے متعلق بات کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’لوگوں کو نہیں معلوم کہ ارشد آج اس مقام پر کیسے پہنچا ہے، کس طرح ندیم کے دوست، گاؤں والے اور رشتے دار پیسے اکٹھے کرتے تھے تاکہ ندیم اپنی ٹریننگ اور مقابلوں میں حصل لینے کے لیے دوسرے شہروں کا سفر کر سکے۔یاد رہے کہ پاکستان نے پیرس اولمپکس 2024 میں کُل سات کھلاڑیوں کو پیرس بھیجا تھا، ان میں سے چھ اپنے متعلقہ ایونٹس کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔