ارشد ندیم کی کامیابی نے پاکستان میں کھیلوں کو نئی زندگی دیدی

محسن نقوی،لیسکو چیف شاہد حیدر،کھلاڑی، فنکار اور سیاستدان بھی ارشد کی کارکردگی کے معترف ،کھلاڑی اور کھیلوں کی تنظیمیں فنڈز کا رونا چھوڑ کر ارشد کی طرح محنت سے ملک و قوم کا نام روشن کریں ،حکومت موقع سے فائدہ اٹھاکر اگلے اولمپک کھیلوں کی تیاری کرے تاکہ وائلڈ کارڈ سے چھٹکارہ ملے.1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی فتح کے ساتھ پاکستان میں کھیلوں کا ایک نیا دور شروع ہوا، اگرچہ اس سے قبل ہاکی ٹیم اور سکواش لیجنڈ جہانگیر خان عالمی سطح پر اپنی دھاک بٹھا چکے تھے لیکن ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی ان تمام کامیابیوں پر بھاری پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کے سوا باقی تمام کھیلیں منظر سے غائب ہونے لگیں۔ عوامی پسندیدگی کے باعث سپانسرز کی اولین ترجیح کرکٹ بن گئی جس نے ہاکی اور سکواش سمیت دیگر کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کرکٹ میں شہرت اور دولت کی کی ریل پیل نے اس کھیل کو نوجوانوں اور حتٰی کہ والدین کا بھی پسندیدہ بنا دیا جو آج بھی بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر کی بجائے کرکٹر بنانا پسند کرتے ہیں، تاہم امید ہے کہ اب ان کا انتخاب وسیم اکرم، جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کی طرح ارشد ندیم بھی ہوگا۔ اس ساری صورتحال نے دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا۔ موجودہ دور میں کھیلوں کی بڑھتی ضروریات اور شدید مہنگائی نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں کھیلوں کا شعبہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ ایسے میں جیولین سٹار ارشد ندیم کی پیرس اولمپک میں کومیابی نے پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں، کوچز اور آفیشلزکو نئی زندگی دی ہے اور۔ ارشد ندیم کی کامیابی کو 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود ہر ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسی کے چرچے ہیں جبکہ شعیب اختر، شہباز سینئر،وقار یونس اور یونس خان جیسے نامور کھلاڑیوں کے علاوہ فنکار اور سیاستدان بھی خبروں میں رہنے کے لئے ارشد ندیم کو مبارکباد دینے پر مجبور ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ جس نے آج تک وسیع سرمایہ ہونے کے باوجود کسی دوسرے کھیل کی مدد نہیں کی آج اس کے چیئرمین محسن نقوی نے سب سے پہلے ارشد ندیم کو گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد دی جو ان کی عالمگیر کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آج کرکٹ کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جیسا کبھی ہاکی،سکواش اور اتھلیٹکس کو تھا اور امید ہے کہ اب ملک کے نوجوان کرکٹ کی جان چھوڑ کر دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دیں گے، حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاکر ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دے تاکہ نوجوان منفی سرگرمیوں کی بجائے اپنی توانائیاں مثبت کاموں پر خرچ کریں۔ ارشدندیم کی کامیابی راتوں رات ممکن نہیں ہوئی اس کے لئے ایک خون پسینہ ایک کیا گیا ہے۔ میاں چنوں کے چھوٹے سے قصبے میں پہلے کرکٹ، پھر کبڈی اور بعدازاں بیڈمنٹن میں قسمت آزمائی کرنے کے بعد ارشد نے اتھلیٹکس میں جیولین تھرو کا انتخاب کرکے اپنے سفر کا آغاز کیا قومی سطح پر لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی حوصلہ افزائی نے اس ہیرے کو تراشنے میں اہم کردار ادا کیا جس پر لیسکو کے چیف ایگزیکٹو شاہد حیدر خوشی سے سرشار ہیں اور اس کامیابی کو اپنے ادارے کی پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کی جانے والی کاوشوں کاثمر قرار دیتے ہیں۔ ابتدائی دور میں نامسائد حالات کے باوجود ارشد نے ہمت نہ ہاری اور پیرس کے تاریخی ستا دی فرانس سٹیڈیم میں تن تنہا پاکستان کا سفیر بن کر پوری قوم کاسر فخر سے بلند کردیا۔ نیرج چوپڑہ کی شکست سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ صرف پیسے کے بل پر کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی اس کے لئے جوش جذبہ، ہمت اور لگن بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ ارشد ندیم کی کامیابی ان تمام کھلاڑیوں اور سپورٹس فیڈریشنوں کے لئے بھی سبق ہے جو ہر وقت وسائل کا رونا روتی ہیں اورفنڈز اکٹھا کرنے کیلئے تگ و دو کرنے کی بجائے کبھی سرکاری اداروں اور کبھی مخیر حضرات کے در پر حاضری دیتے ہیں کہ شاید کہیں سے خیرات مل جائے۔ارشد ندیم کی کامیابی میں جہاں بہت سے دیگر افراد کا ہاتھ ہے وہیں سب سے اہم کردار پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے سابق صدر اکرم ساہی کا بھی ہے جنہوں نے روز اول سے اس یقین کے ساتھ ارشد ندیم کا ہاتھ تھامے رکھا کہ یہ نوجوان ایک دن ضرور ملک و قوم کا نام روشن کرے گا اس تاریخی کامیابی پر وہ یقینی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ارشد ندیم کی کامیابی نے تمام کھیلوں کے لئے بند ہونے والے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ کھیلوں کی فیڈریشنیں روایتی سہل پسندی چھوڑ کر اس اہم موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے اپنے کھیل کے فروغ کیلئے دن رات ایک کردیں تاکہ پاکستان اقوام عالم میں کھیلوں کی سپر پاور بن کر ابھر ے اور چار سال بعد ہونے والے اولمپک کھیلوں میں وائلڈ کارڈ کی بجائے کھلاڑی اپنی محنت کے بل بوتے پر کوالیفائی کرکے میگا ایونٹ کا حصہ بنیں جبکہ کھلاڑی وسائل کی کمی کا رونا چھوڑکر ارشد کی طرح محنت سے دنیا میں اپنا اور ملک کا نام روشن کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں