اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنوبی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں میں روزانہ کی بنیاد پر وقفہ دے گی تاکہ مزید انسانی امداد غزہ پہنچائی جا سکے۔اطلاعات کے مطابق ان وقفوں کا اطلاق سنیچر سے شروع ہو چکا ہے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے اگلے اعلان تک کارروائیوں میں وقفہ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے سے شام سات بجے تک کیا جائے گا۔
ان وقفوں سے غزہ اور اسرائیل کو جوڑنے والی کریم شالوم گزرگاہ متاثر ہو گی۔ یہ راستہ غزہ کے جنوب میں کریم شالوم کراسنگ سے صلاح الدین روڈ تک جاتا ہے اور پھر شمال میں اس سے خان یونس شہر کے نزدیک واقع یورپی ہسپتال تک رسائی ہوتی ہے۔اس اعلان کے فوری بعد اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے حکومتی وزرا کی جانب سے شدید سیاسی ردِعمل سامنے آیا اور اسی طرح اس کے خلاف اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری دفاع بھی کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی غزہ میں جنگ کے خاتمے کی جانب اشارہ نہیں اور نہ انسانی بنیادوں پر غزہ میں داخل ہونے والی امداد کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق نہ تو اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نتن یاہو اور نہ ہی وزیرِ دفاع یوآو گلانٹ کو اعلان سے پہلے اس بات کا علم تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیرِ اعظم کےدفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جب وزیرِ اعظم نے اس بارے میں اتوار کو سنا تو انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری کو آگاہ کیا کہ یہ منصوبہ ’ناقابلِ قبول‘ ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ڈی ایف کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور رفح میں جنگ ’ویسے ہی جاری رہے گی۔‘
قومی سلامتی کے وزیرِ اور اتنہائی دائیں بازو کے اتامار بین گویر نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے وہ ’بیوقوف‘ اور ’برا‘ ہے۔اس ردِ عمل سے بنیامن نتن یاہو کی صورتحال بھی واضح ہوتی ہے جو ایک جانب ایسے عسکری اہداف جن میں حماس کے خاتمے اور یرغمالیوں کو واپس لانا شامل ہیں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بظاہر پورے ہوتے نہیں دکھائی دیتے اور دوسری جانب اپنے سیاسی اتحادیوں جن کے ذریعے وہ اس وقت اقتدار میں ہیں کی تنقید کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیل کو امریکہ سمیت اپنے اتحادیوں کی جانب سے غزہ میں انسانی بحران کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مزید بات چیت کے بعد لیا گیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر شیئر کی جانے والی ایک پوسٹ میں اسرائیل ڈیفینس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی ہے اور رفح میں بدستور لڑائی جاری رہے گی۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک ماہ سے زائد عرصہ قبل رفح میں داخل ہونے اور مصر کے ساتھ واقع کراسنگ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد لاکھوں افراد یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔تب سے رفح کراسنگ بند ہے۔ اس سے قبل یہ گزرگاہ غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کا اہم راستہ تھا۔اسرائیل کا اصرار ہے کہ رفح میں اس کی کارروائی حماس کو اُس کے ’آخری بڑے گڑھ‘ سے نکالنے کے لیے ضروری ہے۔بین الاقوامی اداروں نے غزہ میں سنگین انسانی صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے بارہا امداد پہنچانے کے لیے مطالبہ کیا ہے۔
بدھ کے روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ’بھوک اور قحط جیسی صورتحال‘ کا سامنا ہے۔
اسرائیلی ڈیفینس فورس کا کہنا ہے کہ سنیچر کے روز رفح میں ہونے والے دھماکے میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ جنوری کے بعد سے اب تک آئی ڈی ایف کے لیے ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔یہ دھماکہ رفح کے تال السلطان علاقے میں ایک آپریشن کے دوران ہوا۔ یہ علاقہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی فورسز کے لیے ایک اہم ہدف رہا ہے۔حماس کے مسلح ونگ کا کہنا ہے کہ اس نے گھات لگا کر ایک اسرائیلی بکتر بند گاڑی کی طرف راکٹ فائر کیے تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلیوں پر زور دیا ہے کہ بھاری جنگی نقصان کے باوجود انھیں اپنے اہداف پر قائم رہنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’حماس کی حکومتی اور فوجی صلاحیتوں کا خاتمہ، تمام یرغمالیوں کی رہائی، اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے اور اپنے باشندوں کو شمال اور جنوب میں بحفاظت واپسی یقینی بنانا ہے۔‘امدادی تنظیموں کی جانب سے بارہا غزہ کے اردگرد امداد کی تقسیم میں مشکلات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے جمعے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ امداد لے جانے والے ایک قافلے کو تمام ضروری دستاویزات ہونے کے باوجود شمالی غزہ میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر بھی اس قافلے کے ہمراہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب آئی ڈی ایف نے ایلڈر پر واقعے کی ’جزوی تصویر‘ پیش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ کاغذی کارروائی صحیح طریقے سے کی گئی تھی۔موجودہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک حملے سے ہوا جس میں اسرائیل کے دعوے کے مطابق تقریبا 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 240 یرغمال بنا لیے گئے۔حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 37,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ کئی لاکھ زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت جاری ہے۔
دوسری جانب سنیچر کے روز امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ جلد ہی مذاکرات کے لیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں حماس نے جنگی بندی پر امریکی حمایت یافتہ منصوبے کے کئی نکات پر جوابی تجاویز پیش کی ہیں۔جنگ بندی کے اس معاہدے کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں غزہ کے لیے انسانی امداد میں ’اضافہ‘ ہوگا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی تجویز ہے حالانکہ اسرائیل کی جانب سے اس کی عوامی سطح پر توثیق نہیں کی گئی ہے۔