واشنگٹن: غزہ کے بعد لبنان پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور شہریوں کے قتل کو امریکی صدر جو بائیڈن کی تباہ کن ناکامی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جنھوں نے اسرائیل کو لبنان پر حملہ کرنے کی ہمت دی۔
الجزیرہ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کو ختم کرنے اور لبنان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے میں امریکی ناکامی مشرقِ وسطیٰ کے خطے کو ایک بڑی اور وسیع جنگ کی طرف لے جا رہی ہے۔
یہ لبنان پر اسرائیلی حملوں سے ایک ہفتے قبل کی بات ہے، جب امریکا نے خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے ’مقصد‘ کے تحت ایک سفارت کار کو اسرائیل بھیجا، جو بائیڈن کے ایلچی اموس ہوچسٹین 16 ستمبر کو خطے میں پہنچے، جس کا مقصد حزب اللہ اور اسرائیلی افواج کے درمیان اسرائیل-لبنان سرحد پر روزانہ فائرنگ کے تبادلے کو روکنا تھا۔
لیکن ہوچسٹین کی آمد کے ایک دن بعد ہی لبنان بھر میں حزب اللہ سے جڑے بوبی ٹریپ مواصلاتی آلات کو دھماکے سے اڑا دیا گیا، اس حملے میں ہزاروں افراد زخمی اور متعدد ہلاک ہوئے، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے ایک سینئر فیلو خالد الگندی نے کہا کہ ہوچسٹین کے دورے کا وقت اور اس کے بعد لبنان پر اسرائیلی حملے بالکل اسی نوعیت کے تھے، جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ اس سے چاہتی ہے کہ وہ کرے۔
خالد الگندی نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ بالکل وہی ہے جو پچھلے 12 مہینوں سے ہو رہا ہے، اسرائیلی جانتے ہیں کہ انھوں نے بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ہر ایک انتباہ کو واضح طور پر بار بار نظر انداز کیا ہے، اور انھیں اس کے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جمعہ کے روز، اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک عمارت پر بمباری کی، جس میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کے ساتھ ساتھ کئی بچوں سمیت درجنوں دیگر افراد جاں بحق ہوئے، اس کے ساتھ ہی اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر فائرنگ پھر عروج پر پہنچ گئی۔ جب کہ اسرائیل کی لبنان میں خون کی ہولی میں جاں بحق لبنانیوں کی تعداد 570 سے تجاوز کر گئی ہے۔
الگندی اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے غیر مشروط امریکی حمایت کی وجہ سے واشنگٹن نہ صرف غزہ جنگ بندی کرانے میں ناکام رہا ہے، بلکہ اب لبنان میں ایک وسیع جنگ کے لیے بھی اسرائیل کو حوصلہ مل گیا ہے، جس سے خطہ تباہی کے کنارے کی طرف پھسلنے لگا ہے، الگندی نے کہا یہ ایک پالیسی کی تباہ کن ناکامی ہے، بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی کا ہر پہلو ناکام رہا ہے، خواہ وہ انسانی ہمدردی کا پہلو ہو، سفارتی، اخلاقی، قانونی ہو یا سیاسی۔