اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر ہو جائے تو ملک میں سیاسی حالات بہتر ہو جائیں گے۔
یہ بڑی بات انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہی ۔ انہوں نے حکومت کے عوام دوست بجٹ کے دعوے پر تنقید کی اور کہا کہ حقیقت میں ملک کا کباڑہ ہو گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ اس وقت ملک پر اقلیت کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔
بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے، اس لئے وہ ٹیکس نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف چائنہ کے دورے سے کامیاب واپس نہیں آئے۔ چائنہ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے اورسیکیورٹی کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کے ذریعے چائنہ کو جواب دیا جا رہا ہے کہ ہم استحکام لا رہے ہیں، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے حکومت کی پالیسیاں اور فیصلے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنائے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس فیصلے سے پہلے کس سے مشورہ کیا گیا تھا؟ انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ اس ذمہ داری کو نہ لیں اور مشاورت کے عمل کو وسیع کریں، مگر ان کی بات نہیں سنی گئی۔
سربراہ جے یو آئی ف نے پارلیمان کی صورتحال پر بھی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان اپنا مقدمہ ہار چکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اگر الیکشن میں دھاندلی کرتی ہے تو یہی ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر ہونا چاہئے تاکہ حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر بیٹھ سکیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے بجٹ پر تکنیکی بحث کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ 1988 ءسے ایوان میں ہیں اور بہت سارے بجٹ دیکھ چکے ہیں، مگر ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ان کا بجٹ عوام دوست ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ملک کی معیشت کس حالت میں ہے، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ہر شعبے پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور عوام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹیکس دیں تاکہ معیشت مستحکم ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مختلف آپریشنز کے دوران لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا، سوات سے شمالی وزیرستان تک کے علاقوں کو خالی کرایا گیا، لوگ اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ چمن بارڈر پر لوگ 9 ماہ سے دربدر ہیں، افغانستان اس بارڈر کو ڈیورنڈ لائن سمجھتا ہے جبکہ ہم اسے پاک افغان بارڈر کہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے ریاست کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو پتہ ہے کہ ٹیکس کا پیسہ ان پر خرچ نہیں ہوگا بلکہ آئی ایم ایف کو دیا جائے گا، اس لئے وہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک پر اقلیتی حکومت کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی بھی اس حکومت کا حصہ نہیں ہے۔ عوام دوست بجٹ کا نعرہ لگایا گیا، مگر ملک کا کباڑہ کر دیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی یہ تقریر بجٹ اجلاس کے دوران حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر سخت تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے عوام کے تحفظات اور مشکلات کو واضح انداز میں بیان کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مشاورت کے عمل کو وسیع کرے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔