الیکشن کمیشن اور مخصوص نشستیں

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے وضاحت کیلئے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم اور پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو کس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ یہ درخواست الیکشن کمیشن کے آٹھ اجلاسوں کے بعد دائر کی گئی ہے‘ جن میں کمیشن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ 23 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلہ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘ یہ فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔ تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے‘ الیکشن میں سب سے بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے‘اور یہ کہ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ تفصیلی فیصلے الیکشن کمیشن کو ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون قرار دیا گیا مگر یہ کہ یہ ادارہ فروری 2024ء کے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست میں جس الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کے حوالے سے پوچھا گیا ہے اُسکے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانیوالا امیدوار آزاد تصور ہو گا‘ مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔اور یہ کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابلِ تنسیخ تصور ہو گا۔
میری رائے میں الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ میں وضاحتی درخواست دائر کرنا بے جا ہے کیونکہ سپریم کورٹ اپنے تفصیلی فیصلے میں پہلے ہی سارے پہلوؤں کا ذکر کر چکی ہے۔ اس حوالے سے ایک قانونی رکاوٹ یہ ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے دیا ہے‘ اس فیصلے کی وضاحت کیلئے اُس سے بڑا بینچ تشکیل دینا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں بلائے جانے والے اجلاسوں کے دوران یہی خبریں گردش کرتی رہیں کہ الیکشن کمیشن اس معاملے کی وضاحت کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھجوانے پر غور کر رہا ہے لیکن ان خبروں کے برعکس اب سپریم کورٹ سے ہی دوبارہ رجوع کیا گیا ہے۔
مخصوص نشستوں کیس کے تفصیلی فیصلے کا اگر مطالعہ کیا جائے تو الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے کے فیصلے پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے گریز کرنا چاہیے۔اگر حکومت یا پارلیمنٹ اس حوالے سے کوئی سٹینڈ لیتی ہیں تو بھی الیکشن کمیشن کو پارٹی بننے کے بجائے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنا چاہیے‘ کیونکہ کسی مشکل کی صورت میں حکومت الیکشن کمیشن کی معاونت نہیں کر سکے گی۔ کل کو اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو حکومت اپنا دامن جھاڑ کر اس سارے معاملے سے الگ تھلگ ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں صرف اس حد تک حق بجانب ہے کہ تحریک انصاف نے پانچ سال سے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے جس کی وجہ سے الیکشن ایکٹ کی دفعات 208 اور 209 کے تحت پی ٹی آئی کا بطور سیاسی جماعت کوئی وجود نہیں رہا۔لہٰذا اگر یہ معاملہ مزید طول پکڑتا ہے اور اس کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آتے ہیں تو ملک میں تین نومبر 2007ء والی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد صدر مشرف نے آئینی عدالت کے قیام کا بھی فیصلہ کیا تھا مگر اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک قیوم نے اس فیصلے پر عملدرآمد سے باز رکھا۔ دوسری طرف اب حکومتی حلقوں کی طرف سے آئینی عدالت کے قیام کا معاملہ پہلے جتنی شدت کے ساتھ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دیکھا جائے تو حکمران جماعت نے اپنے آئینی بل کو منظور کرانے کیلئے ایسی ٹیم ہی تشکیل نہیں دی جو آئینی ترامیم کی افادیت کو اُجاگر کرتی۔ اس وقت حکومت کے پاس پارلیمانی امور کے ماہرین کا فقدان ہے۔ پارلیمانی امور کا وزیر یا مشیر ہی عدالتوں‘ الیکشن کمیشن اور دیگر آئینی اداروں پر نظر رکھتا ہے جس کا قانونی اور سیاسی پس منظر کا حامل ہونا ضروری ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کی طرف سے ایک بار پھر لاہور میں جلسہ کی اجازت لینے کیلئے درخواست دائر کرا دی گئی ہے۔ یہ درخواست عمران خان کے جنم دن یعنی پانچ اکتوبر کے موقع پر مینارِ پاکستان پر جلسہ کیلئے جمع کرائی گئی ہے۔ قبل ازیں پی ٹی آئی کا 21 ستمبر کولاہور میں ہونیوالا جلسہ کوئی اچھا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا۔ علی امین گنڈاپور کے جلسے میں تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے بھی یہ جلسہ ناکام قرار دیا جا سکتا ہے‘ اس سے پی ٹی آئی مخالفین کو تنقید کا بھرپور موقع میسر آیا۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے کارکنان کو لاہور کے جلسے میں کشتیاں جلا کر پہنچنے کی ہدایت کی تھی لیکن ان کے کارِ خاص علی امین گنڈاپور ہی جلسے میں بروقت نہ پہنچ سکے تو کارکنان کیسے پہنچتے۔
دوسری جانب گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی طرف سے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے حوالے سے وزیراعظم پر بلاوجہ تنقید کی جا رہی ہے۔ ابھی تو آئینی ترمیمی بل بھی منظور نہیں ہوا‘ اس لیے کسی نئے چیف جسٹس کے تقرر کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گورنر پنجاب کی تنقید سے یہ ضرور عیاں ہو رہا ہے کہ آئینی ترمیمی بل کی حمایت کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ گورنر پنجاب کے بعد فاروق ایچ نائیک نے بطور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ایک پریس ریلیز جاری کرکے حکمران جماعت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس پریس ریلیز میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء میں بذریعہ آرڈیننس ترمیم کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں آئینی اصلاحات کا بل کس طرح منظوری کے مراحل سے گزرے گا۔
ملک میں چیف جسٹس کے تقرر میں حکومتی مداخلت کا سلسلہ 1956ء سے چلا آ رہا ہے۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جب بینظیر بھٹو نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کا فیصلہ کرنا تھا تو پہلے عبدالقدیر چودھری کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے یہ عہدہ لینے سے انکار کر دیا کہ جسٹس سعود جان جیسے سینئر ترین جج کی موجودگی میں وہ یہ عہدہ نہیں لے سکتے ہیں۔ جس پر بینظیر بھٹو نے سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کر دیا۔ اسی طرح پرویز مشرف کے دور میں جسٹس ناظم صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے ہی جسٹس افتخار چودھری کو چیف جسٹس نامزد کر دیا گیا تھا۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دور17 ستمبر 2023ء کو شروع ہوا تھا لیکن ان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن 23 جون 2023ء کو ہی جاری کر دیا گیا تھا۔ رائج قوانین کے مطابق نئے چیف جسٹس کا دور 26 اکتوبر 2024ء سے شروع ہوگا۔ یعنی قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی تقریباً ایک ماہ باقی ہے۔ اس عرصہ کے دوران آئینی ترمیم ہو سکتی ہے‘ لہٰذا فی الوقت نئے چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان قبل از وقت ہوگا۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی تبدیلی کے بجائے آئینی ترامیم کے ذریعے نئی فیڈرل کورٹ کے قیام کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس نئی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کیا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دھیمے مزاج کے مالک ہیں‘ وہ متعدد بار توسیع لینے سے انکار کر چکے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں