ہمارے ملک میں مسلسل واقعات ظہور پذیر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور توجہ بھی اِدھر ہی ہو جاتی ہے، یہی مجموعی کیفیت دوست ممالک کی ہے۔اگرچہ حالات مشرقِ وسطیٰ میں خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔اسرائیل مسلسل توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اور اسے انکل سامراج کی مکمل حمایت حاصل ہے، جو اب سے کہیں پہلے سے اسلامی ممالک کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اس نے لیبیا، عراق اور شام و لبنان کو کمزور اور محصور کر کے رکھ دیا تھا کہ اب اسرائیل نے پھر سے قریبی ممالک کی تباہی شروع کر رکھی ہے۔غزہ سے شروع ہونے والی جارحیت بڑھتے بڑھتے اب لبنان اور شام تک آ گئی ہے۔گذشتہ دو تین روز سے اس کی طرف سے شام کی تنصیبات پر حملے شروع کئے گئے اور فضائیہ کی برترتی کے باعث مسلسل بمباری جاری اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ شام کی نیول بیس کے علاوہ شام کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اسے بھی اسرائیل کی طرف سے دفاعی حکمت عملی سے جوڑا جا رہا ہے۔غزہ اور لبنان میں حملوں کا تو اسے کچھ جواب بھی ملا، لیکن شام سے ایساکچھ نہیں ہوا کہ جونہی باغیوں نے شام کے دارالحکومت دمشق کا رُخ کیا۔ اسرائیل نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ اب تو یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گولان یا جولان کی بفرزون کو ختم کر کے اس نے بہت سے حصے پر قبضہ کر لیا ہے،جبکہ شام اور اسرائیل کی سرحد کے ساتھ بھی بعض قصبات پر قابض ہو گیا ہے۔یہاں بدستور مذمت سے کام لیا جا رہا ہے جبکہ امریکہ کھل کر حمایت کر رہا اور دیگر ممالک خاموش رہ کر حساب چکتا کر رہے ہیں۔
میں گذشتہ ڈیڑھ سال اور اس سے بھی پہلے سے اِن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہوں کہ نائن الیون کے بعد میرے اخبار (پاکستان) میں پورے صفحے کا ایک مضمون شائع ہوا تھا، محقق نے بڑی محنت سے مصدقہ احادیث جمع کیں اور ان کے مطابق حالات کو اُجاگر کیا تھا،ان کی طرف سے پیارے رسولؐ کے ارشادت کو ایک موضوع سے متعلق جمع کر کے یہ صفحہ بنایا تھا۔ میں نے یہ بار بار پڑھا اور پھر اپنے بزرگوں کے نصیحت آمیز اقوال کو پیش ِ نظر رکھا، تب سے اب تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ میری نظروں کے سامنے ہے اور بالکل ایسے ہی ہوتا چلا آ رہا ہے جیسا فرمایا گیا تھا۔احادیث کے مطابق مسلمان اپنے دین سے غفلت کا شکار ہو جائیں گے اور دشمن ان پر غالب آتا چلا جائے گا کہ ظہور مہدی و مسیح کا دور قریب آتا جائے گا اور ایسا ہو رہا ہے۔
شام کے حوالے سے بڑے بڑے دانشور حضرات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور رائے دی، مجھے نصرت جاوید سے اتفاق ہے کہ اس سب کے پیچھے ایک سازش نظر آتی ہے۔اگر ذرا توجہ دی جائے تو حالات واضح ہوتے ہیں۔ شام میں امریکی اور روسی افواج موجود ہیں تو ایران کے پاسداران بھی تھے جبکہ لبنان کے حزب المجاہدین والے بھی یہاں اپنا اڈا جمائے ہوئے تھے۔ان حالات میں شام پر مقتدر اسد خاندان کے مقابلے میں جب باغیوں کے حملے شروع ہوئے تو واضح طور پر امریکہ نے ان کی حمایت کی، جبکہ ترکیہ نے کرد فیکٹر کی وجہ سے باغیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ایران کی حمایت برسر اقتدار خاندان کے ساتھ تھی،لیکن غزہ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں اور متعدد ایرانی اعلیٰ فوجی افسروں کی اموات کے باعث ایران بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہو گیا اور باغیوں کو امریکی شہ سے حوصلہ اور یوکرین کے ذریعے اسلحہ ملااور یوں ان کی پیش قدمی رُک نہ سکی،جس کی ایک بڑی وجہ خود شامی فوجوں کی طرف سے مقابلے میں پس و پیش بھی تھی کہ باغیوں کو بڑا مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوئی اور وہ شکست مان گئے۔یوں امریکی لابی جیت گئی اور اسرائیل کو یہاں بھی اجازت دی گئی جس نے دو تین روز تک مسلسل بمباری کر کے شام کی دفاعی حیثیت کو بھی توڑ دیا ہے۔
اب ذرا خود اپنے پر غور کریں تو واضح ہو گا کہ دجال کی آمد اور اس سے پہلے کے جو حالات بیان کیے گئے ہوئے ہیں وہ بدستور عمل پذیر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ریت سے سیال سونے کی برآمد، آسمان کو چھوتی عمارتیں، آپس میں نااتفافی اور اسرائیل کی ٹیکنالوجی کی بدولت برتری بھی ان نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہی بتایا گیا کہ مسلمانوں کو شکست ہونا ہے اور جب آگے پیچھے تین بار ایسا ہو جائے تو پھر دجالی عملداری بھی رائج ہو گی۔
اسی تناظر میں غزہ سے چل کر شام تک بمباری کو دیکھا جائے اور اس پر ہمارے مسلمان ممالک کے رویے پر غور کر لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔اس وقت اسرائیل کم رقبے،کم آبادی کے باوجود مسلمان ممالک پر حاوی ہے اس کا ہاتھ نہ تو غزہ میں روکا جا سکا، نہ لبنان پر ستم گری کم ہوئی، دجالی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ گنجائش ملی۔اللہ نے ہمارے بھائیوں کو دولت سے مالا مال کیا لیکن انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی،الٹا ان کی دولت ہی ان کی دشمن بنی ہے کہ مغربی بنکوں میں پڑی ہوئی ہے،ہمارے مسلمان بھائیوں نے ادھر توجہ نہیں دی اور اب حالات یہ ہیں کہ اسرائیل دندنا رہا اور اسے روکنے والا کوئی نہیں۔