جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو پرانی آوازیں، بدلے کے نعرے، انصاف کی صدائیں اور یہ خطرناک خوش فہمی کہ شاید ایک فیصلہ کن جنگ دہائیوں پرانا تنازع ختم کر دے گی پھر سے گونجنے لگتی ہیں۔ آج خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی ہے؛ ایک غلط فہمی یا جذباتی ردِعمل پورے طرح سےخطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مگر ذرا ٹھہر کر سوچیے: کیا جنگ نے کبھی دونوں ممالک کے اصل مسائل حل کیے ہیں؟ تاریخ کا کھرا اور تلخ جواب ہے: نہیں۔ جنگ مسائل حل نہیں کرتی؛ وہ صرف درد کو آگے بڑھاتی، نقصان بڑھاتی اور حقیقی حل کو مزید مؤخر کرتی ہے۔
پچھلی ایک صدی اس حقیقت کی ناقابلِ تردید گواہ ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کو “تمام جنگوں کا خاتمہ کرنے والی جنگ” کہا گیا، مگر بیس ملین جانیں لینے اور یورپ کی سرحدیں بدلنے کے باوجود معاہدۂ ورسائی نے صرف دو دہائی بعد دوسری جنگِ عظیم کی بنیاد رکھ دی، جس میں اندازاً 70 سے 85 ملین جانیں ضائع ہوئیں۔ ویتنام جنگ میں امریکا نے بے پناہ عسکری طاقت لگائی، لیکن آخرکار پسپا ہونا پڑا اور وہی سیاسی نظام برسراقتدار آیا جسے روکنے کی کوشش کی جا رہی تھی؛ کل انسانی ہلاکتیں تقریباً تین ملین رہیں اور نفسیاتی صدمات نسلوں تک پھیل گئے۔ ایران‑عراق جنگ آٹھ برس جاری رہی، دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے، مگر کوئی زمینی یا تزویراتی فائدہ حاصل نہ ہوا ، صرف ایک خونی تعطل اور دہائیوں پر محیط عدم استحکام۔ 2003 میں عراق پر امریکی حملے نے صدام حسین کو ضرور ہٹایا، لیکن ایک ایسا خلا چھوڑ گیا جس میں فرقہ واریت، خانہ جنگی اور داعش نے جنم لیا؛ بیس سال بعد بھی خطہ سنبھل نہیں سکا۔
بھارت اور پاکستان کی تاریخ بھی اسی سانچے میں ڈھلی ہے۔ 1947، 1965 اور 1971 کی جنگیں، 1999 کی کارگل جھڑپ اور متعدد سرحدی جھڑپیں ہزاریوں جانیں لے چکی ہیں، معیشتیں تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر کر چکی ہیں۔ پھر بھی بالآخر ہمیشہ مذاکرات ہی نے راہ دکھائی ، چاہے وہ تاشقند (1966) ہو یا شملہ (1972) یا بعد کی بیک چینل بات چیتیں۔ سوال یہ نہیں کہ مکالمہ ہو گا یا نہیں؛ سوال یہ ہے کہ وہ مکالمہ کتنی مزید جانوں کی قربانی کے بعد شروع ہو گا۔
آج صورتِ حال کئی گنا سنگین ہے، کیونکہ دونوں ملک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی جدید جنگ کے شعلے سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے؛ وہ شہروں کو راکھ، اسپتالوں اور اسکولوں کو ملبے کا ڈھیر، اور کروڑوں انسانوں کو بے گھر کر سکتے ہیں۔ 2020 میں رٹگرز یونیورسٹی کے ایک جامع مطالعے نے متنبہ کیا کہ جنوبی ایشیا کی محدود ایٹمی جنگ بھی صرف چند دنوں میں 100 ملین اموات اور عالمی سطح پر قحط اور ماحولیاتی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ اب نفع یا فخر کا نہیں، بقا کا سوال ہے۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کی جانیں داؤ پر لگانا بہادری نہیں بلکہ سامراجی حماقت ہو گی۔
برداشت اور مذاکرات کو بعض حلقے کمزوری سمجھتے ہیں، مگر اصل طاقت انتقام میں نہیں، ضبط میں ہے۔ دشمن کے سامنے بیٹھ کر اسے سننا اور پائیدار حل پر کام کرنا ہی حقیقی حوصلہ ہے۔ آج کی عالمگیر معیشت میں کوئی جنگ مقامی نہیں رہتی؛ بھارت‑پاکستان تصادم نہ صرف پورے برِصغیر بلکہ عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دے گا، مہاجرین کے سیلاب اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کو جنم دے گا ، ایک ایسی دنیا میں جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور غربت سے نبرد آزما ہے۔
امن کے روشن نمونے سامنے ہیں۔ یورپ، صدیوں تک جنگوں کا مرکز، دوسری جنگِ عظیم کے بعد مفاہمت کی راہ پر نکلا؛ فرانس اور جرمنی، کبھی خون کے پیاسے دشمن، آج قریبی اتحادی ہیں کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ امن صرف جنگ نہ ہونے کا نام نہیں بلکہ اعتماد اور تعاون کا نام ہے۔ اگر سیاسی ارادہ اور عوامی دباؤ میسر ہو تو بھارت اور پاکستان بھی یہی کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ دل اپیل نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ تقاضا ہے: جنگ نے ہمیں صرف دکھ اور ضائع مواقع دیے؛ مسلسل، بے لاگ ، کھلے دلوں اور خلوص نیت سے سفارت کاری ابھی تک پوری طرح آزمائی ہی نہیں گئی۔ مشکل ضرور ہے، لیکن یہی واحد راستہ ہے جو خطے کو جینے لائق مستقبل دے سکتا ہے۔
رہنماؤں کے سامنے انتخاب بالکل واضح ہے: تباہی یا تعمیر، ماضی کا بھاری سایہ یا آئندہ نسلوں کا روشن مستقبل۔ آج کی دنیا میں حقیقی فتح صرف ایک ہے ، امن ، تاکہ آنے والی نسلیں بلاخوف جینا، تعلیم پانا اور ترقی کرنا سیکھ سکیں۔ یہی وہ میراث ہے جس پر تاریخ فخر کرے گی۔