پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لابی کاروں کی درخواست پر، حال ہی میں امریکی کانگریس کے چند درجن اراکین نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر افراد کی گرفتاریوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا کہا۔ خط میں امریکی انتظامیہ سے عمران خان کی حفاظت اور خیریت کی ضمانت دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے حکام سے درخواست کی گئی کہ وہ جیل میں ان سے ملاقات کریں۔
اسی طرح، برطانوی ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے چند اراکین نے بھی ایک خط لکھ کر عمران خان کی حراست پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ اسے پاکستان میں جمہوریت کیلئےخطرہ قرار دیا ـ
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا سیاسی اور عدالتی نظام شفاف نہیں، اور ہمیشہ سے ہر حکومت میں اس پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ تاہم، مقدمات کے فیصلے عدالتوں ہی کو کرنے ہوتے ہیں۔ عمران خان اور دیگر گرفتار افراد مختلف قانونی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ پاکستانی عدالتوں کا کام ہے کہ وہ انہیں مجرم قرار دیں یا بے گناہ۔ یہ فیصلہ غیر ملکی سینیٹرز، پارلیمنٹیرینز، یا کسی دوسرے ملک کے اثر و رسوخ سے نہیں کروایا جا سکتا۔
ان گرفتاریوں پر تنقید اور انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا نہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے بلکہ ان سینیٹرز اور پارلیمنٹیرینز کے دوہرے معیار کی بھی ایک واضح مثال ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے چھلنی کوزے سے کہے کہ تم میں دو سوراخ ہیں۔ اگر یہ امریکی اور برطانوی سیاستدان اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کرتے یا اس وقت فلسطین کے معصوم عوام کے بہیمانہ قتل عام پر آواز اٹھاتے، تو ان کی غیر جانبدارانہ ساکھ ہوتی، ان کے بیانات میں وزن ہوتا، اور وہ زیادہ قابلِ اعتبار نظر آتے۔
امریکہ میں پولیس کی بربریت، نسلی امتیاز، اور قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل سنگین ہیں۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی اور مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تشدد، غیر ضروری طاقت کے استعمال، اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، انسانی حقوق کی پیمائش کے مطابق، امریکہ کو آزادیٔ غیر قانونی گرفتاری کیلئے5.3، جبری گمشدگی کیلئے 8.0، سزائے موت سے آزادی کیلئے4.9، ماورائے عدالت قتل سے آزادی کیلئے 4.4، اور تشدد سے آزادی کیلئے5.4 کا اسکور دیا گیا ہے۔
برطانیہ میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں، جن میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حراستی مراکز میں غیر انسانی حالات، جبری مشقت، پولیس کی زیادتیاں اور طاقت کا غلط استعمال، اقلیتی گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک، بچوں کے جنسی استحصال کے اسکینڈلز، اور انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت افراد کو بغیر مقدمے کے طویل حراست میں رکھنا شامل ہیں۔
یہ اراکینِ پارلیمنٹ ایک پاکستانی سیاسی جماعت کے کہنے پر اور حقائق کو مکمل طور پر سمجھے بغیر پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اس کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ اگر وہ واقعی انسانی حقوق کے بارے میں فکرمند ہیں، تو انہیں اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور فلسطین میں مظالم پر اپنی مجرمانہ خاموشی کا جواز دینا ہوگا۔
20 نومبر 2024 تک، اسرائیل اور حماس کے تنازع کے نتیجے میں فلسطین میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، 44,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین، بچوں، اور بزرگوں کی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ نے اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 کے دوران، امریکہ نے اسرائیل کو تقریباً 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی، جس میں اپریل 2024 میں صدر بائیڈن کے دستخط کردہ 95 بلین ڈالر کے سیکورٹی پیکج میں سے 17 بلین ڈالر شامل ہیں۔
اسی طرح، برطانیہ نے بھی اسرائیل کی بھرپور حمایت کی ہے۔ مشرقی بحیرۂ روم میں فوجی وسائل تعینات کیے گئے ہیں، اور برطانوی رائل ایئر فورس کے جاسوسی طیارے غزہ پر سرویلنس کر رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مقدمات کیلئےمعلومات فراہم کر رہے ہیں۔
یہ دوہرا معیار مزید واضح ہو جاتا ہے، جب یہ امریکی قانون ساز عمران خان سے جیل میں ملاقات کے لیے امریکی سفارت خانے کے حکام سے درخواست کرتے ہیں، لیکن خود امریکہ کا ریکارڈ انسانی حقوق کے حوالے سے ناقابل تقلید ہے۔ گوانتانامو بے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں قیدیوں کو بغیر مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید رکھا جاتا ہے، اور ان کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی وہاں 30 قیدی بغیر کسی رسمی الزام کے زیر حراست ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایک اور واضح مثال ہے۔ ٹیکساس میں 86 سال کی سزا بھگتنے والی اس پاکستانی نیورو سائنٹسٹ نے دورانِ قید شدید بدسلوکی، جسمانی تشدد، جنسی زیادتی، طبی غفلت، اور دیگر آئینی و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ پچھلے سال، پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان نے ان سے ملاقات کے بعد ان کی صحت اور حالت کو “دہشت زدہ اور افسوسناک” قرار دیا۔
یہ سیاست دان اپنی حدود میں انسانی حقوق کے مسائل کو حل کریں، بجائے اس کے کہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کریں۔ عمران خان، ایک سیاستدان کے طور پر، پاکستانی جیل میں غیر معمولی سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جن میں روزانہ خاندان، وکلا، اور میڈیا تک رسائی شامل ہے۔ امید ہے کہ امریکی قانون ساز عمران خان کے مقابلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے بھی کم از کم ایک فیصد مراعات کیلئے آواز اٹھائیں گے، جو بھی انسانی حقوق کی برابر حقدار ہیں۔