انصاف، امن و امان یا کشور کُشائی؟

قرآن مجید انصاف، امن اور ایک منصفانہ معاشرے کے قیام پر زور دیتا ہے، نہ کہ کشور کُشائی پر، یعنی زمینوں یا ممالک کی فتح پر۔ اس کے جنگ سے متعلق احکامات مخصوص حالات کے لیے ہیں، جیسے دفاع یا مظلوموں کی مدد کرنا (جیسے، سورہ البقرہ 2:190)۔ اسلام کے پرامن طریقے سے پھیلانے کو ترجیح دی گئی ہے، جیسا کہ سورہ النحل 16:125 میں فرمایا: “اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو۔”
کچھ احادیث، جیسے غزوۂ ہند یا بازنطینی علاقوں کے خلاف مہمات، زمین کے حصول کے لیے جنگوں کی حمایت میں پیش کی جاتی ہیں، یعنی کشور کُشائی کے لیے۔ لیکن یہ روایات اکثر ممکنہ مستقبل کے واقعات کی وضاحت سمجھی جا سکتی ہیں، نہ کہ جارحانہ حملوں کے لیے احکامات کہی جا سکتی ہیں۔ علماء ان کی صحت پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی زبان اپنے وقت کے معمولات کی عکاسی کرتی ہے۔

اہم سوال یہ ہے کہ جب قرآن حکمت کے ذریعے ایمان پھیلانے کا حکم دیتا ہے اور یہ احادیث جنگ کا اشارہ دیتی ہیں، تو کیا مسلمانوں کو قرآن کو احادیث پر فوقیت نہیں دینی چاہیے؟ ان روایات کی غلط تشریح قرآن کے اصولوں، یعنی امن، انصاف اور ضبط، کے خلاف جاتی ہے۔ حقیقی اسلامی تعلیمات حکمت اور انصاف کو ترجیح دیتی ہیں، نہ کہ زمینوں کے حصول کے لیے کشور کُشائی کو۔
علامہ اقبال ایک نوآبادیتی دور کے محکوم مسلم معاشرے کے شاعر ہیں اس لیے اُن کی شاعری میں جہاد کو کشور کُشائی کی بجائے حُریت کی جدوجہد سے تعبیر کرنا چاہیے:
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اس پس منظر میں آج کے دور کے زید حامد جیسے جنگ پسند پاکستان کے نوجوانوں کو انڈیا سے جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے “غزوۂِ ہند” کی ضعیف حدیثوں کو دہراتے رہتے ہیں۔ اب پاکستانیوں کو انتخاب کرنا ہے کہ وہ اقبال کے افکار کو اپنانا چاہتے ہیں یا جنگ پسندوں کے پراپیگنڈے کو۔

اپنا تبصرہ لکھیں