انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں چار دن میں چار حملے اور مودی کی ’خاموشی‘

اتوار کی شام انڈیا کے دارالحکومت نئی دلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری سے صرف ایک گھنٹہ قبل انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک حملہ ہوا۔

جموں کے رِیاسی ضلع میں ہندو یاتریوں سے بھری بس پر ہونے والے اس مسلح حملے میں 9 افراد کی ہلاکت کے بعد قریبی علاقوں میں بھی تشدد کی لہر بھڑک اُٹھی۔

یہ حالیہ دنوں میں ایسا واحد واقعہ نہیں بلکہ انڈیا کی سکیورٹی فورسز پر چار دن میں چار حملے ہو چکے ہیں جن میں اب تک 2 مسلح عسکریت پسند اور ایک پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ ایک عام شہری سمیت کئی پولیس اور فوجی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

پولیس کے مطابق کٹھوعہ کے ہیرا نگر علاقے میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے تاہم دیگر مقامات پر حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جنھیں تلاش کرنے کی مہم جاری ہے۔

واضح رہے کہ جموں کے یہ علاقے دو دہائیوں سے نسبتاً پُرامن تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم تشدد کی اس اچانک لہر کے بعد پورے جموں خطے میں فوج اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں نے ریڈالرٹ کا اعلان کیا ہے اور متاثرہ بستیوں کے اِرد گرد وسیع علاقوں میں تلاشی مہم جاری ہے۔

ایسے میں الیکشن سے قبل جارحانہ بیانات دینے والے نریندر مودی کی جانب سے حالیہ حملوں پر خاموشی کو اپوزیشن تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے لیکن ماضی کے برعکس نئی قیادت دھمکیوں سے گریز کررہی ہے۔

حالیہ حملوں کے بعد اب تک انڈیا کی قیادت کی جانب سے پاکستان پر کوئی براہ راست الزام تو نہیں لگایا گیا تاہم ماضی میں انڈیا کا موقف رہا ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے جبکہ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ کا خدشہ؟
کٹھوعہ، ریاسی، ڈوڈہ اور بھدرواہ میں ہوئے حالیہ تشدد کے پس منظر میں چند حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یاتریوں کی ہلاکت اور پے در پے حملوں کے ردعمل میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

2019 میں 14 فروری کے روز پلوامہ کے لیت پورہ علاقے میں ہائی وے پر جارہی انڈیا کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی ایک بس کے ساتھ خودکش بمبار نے بارود سے بھری ایک کار ٹکرائی جس میں 40 سے زیادہ نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ ایک ہفتے بعد انڈین فضائیہ نے پاکستان کے بالاکوٹ علاقے میں بمباری کرکے دہشت گردوں کے ٹھکانے برباد کرنے کا دعویٰ کیا۔

بالاکوٹ آپریشن کے بعد انڈیا میں نریندر مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور وہ دوسری مرتبہ ایک طاقت ور وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے۔

جموں میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’صرف پلوامہ واقعہ کے وقت ہی جنگ جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی، بلکہ 22 سال پہلے جب جموں کے کالوچک علاقے میں فوج کے فیملی کوارٹرز پر مسلح حملے میں درجنوں فوجیوں کو اُن کے اہلخانہ سمیت ہلاک کیا گیا تو سرحدوں پر جنگ جیسی صورتحال تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پلوامہ کے بعد لوگوں کی توقعات بڑھی ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مودی حکومت دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گی، بلکہ اس کی جڑ کو ختم کرے گی۔‘

واضح رہے 2002 کے کالو چک واقعے سے متعلق اُس وقت کے انڈین وزیردفاع جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’اے کال ٹُو آنر‘ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تناؤ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ہم جنگ کے بہت زیادہ قریب تھے۔‘

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بار ایسا ہو سکتا ہے؟

اس حوالے سے مصنف اور سیکورٹی امور کے ماہر لَو پُوری کہتے ہیں کہ ’ہم نے کالو چک حملے کے وقت بھی دیکھا اور پلوامہ کے وقت بھی دیکھا کہ دونوں ملکوں کے بیچ فوجی تناوٴ بڑھ گیا تھا۔ لیکن اس وقت مودی حکومت کا ردعمل نہایت محتاط ہوگا، کیونکہ نریندر مودی اتحادیوں کے سہارے اقتدار میں ہیں اور کانگریس اب طاقتور اپوزیشن بن گئی ہے۔ یہ سب لوگ ماضی کے آپریشن کے نتائج پر سوال اُٹھا سکتے ہیں۔ ‘

کشمیر میں بعض حلقے اس واقعے کو اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اُس بیان کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں جو انھوں نے الیکشن مہم کے دوران دیا تھا۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اقتدار کے تیسرے دور میں تین ماہ کے اندر اندر مودی حکومت پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو انڈیا کے ساتھ ملائے گی۔

جموں کے ریٹائرڈ فوجی افسر نے بتایا کہ ’عوام میں یہ چاہت پیدا تو کی گئی ہے، لیکن یہ مجھے مشکل نظر آرہا ہے، کیونکہ جنگ پھیل گئی تو وہ مقصد پورا نہیں ہوگا جس مقصد کے لیے یہ سب کچھ کہا جا رہا تھا۔‘

اکثر مبصرین سمجھتے ہیں نریندر مودی آرٹیکل 370 کو انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکریت پسندی کی بنیادی وجہ قرار تو دے رہے تھے، لیکن اس کے خاتمے کے بعد مزید تشدد، خاص طور سے جموں میں تشدد کی نئی لہر اس بیانیہ کو کمزور کر چکی ہے۔

’تشدد روکنا ہے تو پاکستان سے بات کریں‘
جموں کی پرتشدّد صورتحال پر دلیّ سے سرینگر تک اپوزیشن رہنماؤں نے مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

کانگریس کے رہنما راہُل گاندھی نے کہا کہ ’نریندر مودی مبارکبادیاں لینے میں مصروف ہیں اور اُن یاتریوں کی چیخ وپکار نہیں سُن رہے جو کٹھوعہ میں مارے گئے۔‘

انھوں نے حکومت سے پوچھا کہ ’بی جے پی کی حکومت ہے تو اُن لوگوں کو کیوں نہیں پکڑا جارہا ہے جو ایسے حملوں کا منصوبہ بنارہے ہیں۔‘

جموں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے ایک بیان میں کہا: ’تشدد روکنا ہے تو پاکستان کے ساتھ بات کریں۔ تشدد ختم نہیں ہوگا جب تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان انڈرسٹینڈنگ نہ ہو۔‘

انھوں نے عام لوگوں پر تشدد کے اثرات اور معصوم لوگوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ’مُجھے اُمید ہے کہ جس طرح حکومت نے چین کو انگیج کیا ہے اسی طرح پاکستان کے ساتھ بات چیت کو بحال کیا جائے۔‘

تاہم جموں کشمیر میں بی جے پی کے صدر رویندر رینا نے اپنے فوری ردعمل میں فاروق عبداللہ کے بیان پر افسوس کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’بجائے اس کے کہ فاروق عبداللہ پاکستان کی مذمت کرتے، اُسے آئینہ دکھا کر دنیا میں ایکسپوز کرتے، وہ ڈائیلاگ کی وکالت کر رہے ہیں، یہ تو افسوس کی بات ہے۔‘

کانگریس کے اترپردیش کے سربراہ اجے رائے اور پارٹی کے مہاراشٹرا میں اتحادی اُدھو ٹھاکرے نے ایک بیان میں کہا کہ ’آرٹیکل 370 ہٹنے سے کشمیر میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ کشمیر جل رہا ہے، جانیں جا رہی ہیں۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ اگر مودی کشمیر میں دہشت گردوں کے حملے روک نہیں سکتے تو انھیں وزیراعظم ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ لوگ کہاں ہیں جو الیکشن میں کشمیر کی باتیں کررہے تھے۔‘

جموں میں حملے کیوں ہو رہے ہیں؟
جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب واقع ہیں جبکہ ریاسی ضلع، جہاں تازہ حملے میں ہندو یاتری مارے گئے، بھی پہاڑی سلسلے سے راجوری کے ساتھ ملتا ہے۔

اس خطے میں صرف پچھلے سال کے دوران مختلف حملوں میں 24 فوجی، 7 عام شہری اور 28 مسلح شدت پسند مارے گئے ہیں۔

دو دہائیوں تک پرامن رہنے والے جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں تشدد کی لہر 2019 میں آرٹیکل 370 ہٹانے کے چند ماہ بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔

سیکورٹی امور کے ماہر لَو پوُری کہتے ہیں کہ ’چین کے ساتھ کشیدگی کے بعد بڑی تعداد میں فوج کو ایل او سی سے ہٹا کر لداخ بھیج دیا گیا، لیکن اس میں دوسرے فیکٹر بھی ہیں۔ فوج کہتی ہے اس خطے میں صرف 25 دہشت گرد سرگرم ہیں، لیکن پھر زیادہ جانی نقصان فوج کا ہی کیوں ہورہا ہے؟‘

کشمیر کی مسلح شُورش سے متعلق کتاب ’جموں کشمیر میں ملی ٹینسی: ایک بے نقاب چہرہ‘ کے مصنف لَو پُوری کہتے ہیں کہ ’یہ خطے پہلے بھی کشیدہ تھے۔ اکثر عسکریت پسند کشمیری نہیں بولتے تھے، انھوں نے اسی خطے (راجوری پونچھ) میں اپنی بیس بنا لی تھی۔ لیکن اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اُس وقت کی حکومتوں نے سیاسی حکمت عملی اپنائی۔‘

لَو پُوری کہتے ہیں کہ ’جغرافیائی، تمدنی اور لِسانی پہلووں کو دیکھیں تو راجوری، پونچھ اور ریاسی کا بیشتر حصہ دراصل پاکستانی زیرانتظام کشمیر کا ایکسٹینشن ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طرف کے حصے میں بڑی تعداد میں ہندو اور سِکھ بھی آباد ہیں جن میں سے اکثر کے خاندان 1947 میں یہاں آئے تھے۔‘

مسٹر پُوری آرٹیکل 370 کو سیکیورٹی کے زاویے سے دیکھنے کو سٹریٹجک غلطی کہتے ہیں ’کیونکہ عسکریت پسندی کے ساتھ اس کا (آرٹیکل 370) تعلق نہیں ہے۔ فیصلہ سازی کے لیے کُرسیوں پر بیٹھی سیاسی اشرافیہ کو دیکھنا چاہیے کہ کشمیر کو ملک کی سیاست میں کھپانے سے قومی سلامتی پر کیا اثر پڑتا ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پیچیدہ حالات سے متعلق صرف عسکری زاویہ رکھنا کوئی نتائج نہیں دے گا۔ ’اس کے لیے مقامی سیاست کو سہولت کار بنانا پڑے گا اور سماج کی حساس مساوات کو قائم رکھنا ہوگا۔‘

اسمبلی الیکشن موخر کرنے کا مطالبہ
تاہم انڈیا کے سابق آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے ایک انڈین ٹی چینل پر کہا ہے کہ حکومت کو جموں کشمیر میں سیکورٹی سے متعلق حاصل کنٹرول کو مزید سخت کرنا ہوگا اور اسمبلی الیکشن کو موخر کیا جائے۔

واضح رہے انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر میں 2018 سے کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ لیفٹنٹ گورنر اور چند افسران دلی کی براہ راست نگرانی میں ہی مقامی انتظامیہ چلا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں مودی حکومت نے کئی مرتبہ اعلان بھی کیا کہ ’مناسب وقت پر‘ الیکشن کروائے جائیں گے، لیکن بعد میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے مارچ میں حکومت کو ہدایت دی کہ ستمبر کے آخر تک جموں کشمیر کی صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کروائی جائے۔

جنرل ملک کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے الیکشن میں کسی بھی تاخیر کو ’عسکریت پسندوں کے سامنے گُھٹنے ٹیکنے کے مترادف‘ قرار دیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلح تشدد یا ہلاکتوں کے باوجود کشمیر میں الیکشن ہوتے رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں اُس وقت کی رکن پارلیمان محبوبہ مفتی نے پارلیمنٹ میں عسکریت پسندوں کی تعداد کے بارے میں سوال پوچھا تو اُس وقت کی وزارت داخلہ نے تحریری جواب میں کہا تھا کہ کشمیر میں 6 ہزار مسلح شدت پسند سرگرم تھے، اور کشمیر کے علاوہ جموں میں بھی پرتشدد واقعات رونما ہورہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں انتخابات ہوتے رہے۔

ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’انڈین حکومتیں تشدد کے باوجود وسیع پیمانہ کا سیکورٹی بندوبست کرکے الیکشن کرواتی تھیں۔ الیکشن کروانا اور اُس میں لوگوں کا ووٹ ڈالنا، مسلح تشدد کے بیانیہ کے خلاف حکومت کا اہم کارڈ رہا ہے۔‘

’اگر اس بار الیکشن پھر سے موخر ہوئے تو حکومت کو ٹھوس جواز دینا پڑے گا، اور اپوزیشن اس بارے میں چپ نہیں بیٹھے گی۔‘

اپنا تبصرہ لکھیں