اوٹاوا: کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پر کرسی چھوڑنے کیلئے دباؤ بڑھنے لگا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ نے کینیڈا میں قیادت میں تبدیلی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے، گزشتہ روز کینیڈا کی وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے پالیسیوں پر اختلافات کے سبب استعفیٰ دے دیا تھا۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت ان کی وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ کی اچانک علیحدگی سے ایک نئی انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔ پیر کا دن ٹرڈو حکومت کیلئے خاصہ ہنگامہ خیز رہا، اگرچہ ان کو نیا وزیر خزانہ مل گیا ہے تاہم جسٹن ٹروڈو کو اب اپنی ہی لبرل پارٹی کے ارکان کی جانب سے استعفیٰ دینے کے مطالبے کا سامنا ہے۔
اپنے استعفے کے خط میں فری لینڈ نے ٹروڈو کے ساتھ اس بات پر اختلاف کا حوالہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کے خطرے کا جواب کیسے دیا جائے گا۔ کیوں کہ ٹرمپ نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر کینیڈا مشترکہ سرحد کو زیادہ محفوظ نہیں بنائے گا، تو امریکا درآمدی کینیڈین اشیا پر 25 فی صد ٹیکس عائد کر دے گا۔ جب کہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان محصولات کا کینیڈا کی معیشت پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے۔
کرسٹیا فری لینڈ کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی ’جارحانہ اقتصادی قوم پرستی‘ سے کینیڈا کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، اور اس خطرے سے نمٹنے کیلئے وزیر اعظم ’مہنگی سیاسی چالوں‘ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ بعد ازاں ڈونلڈ نے بھی فری لینڈ کو جواب دیتے ہوئے پوسٹ کیا کہ وزیر خزانہ کا رویہ مکمل طور پر زہریلا تھا، اور ایسے رویے کے ساتھ کینیڈین شہریوں کے حق میں کوئی معاہدہ ممکن نہیں ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا کا کہنا ہے کہ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا مستقبل ان کی کابینہ کے سب سے سینئر رکن، جو کبھی قریبی اتحادی تھی، کے اچانک استعفے کے بعد غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ ٹروڈو 2013 سے لبرل پارٹی آف کینیڈا کے رہنما ہیں اور وہ 2015 سے اب تک 9 سال تک کینیڈا کے وزیر اعظم رہے ہیں، پارٹی کے آئین کے تحت رہنما کسی بھی وقت اپنا استعفیٰ پیش کر سکتا ہے۔ تاہم، ٹروڈو نے اب تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ کسی وقت رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جائیں گے۔