اپوزیشن لیڈرکی برآمدگی

گزری جمعرات کے دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری صاحب کے سنگل بنچ کے پاس کیس کرنا تھا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے چھ رکنی آئینی بنچ کے سامنے بھی اُسی روز ایک آئینی مقدمہ فکس ہو گیا۔ دونوں عدالتوں سے فارغ ہونے کے بعد پہلے پہرکے آخر میں اسلام آباد کی دس یونیورسٹیز اور کالجز میں زیر تعلیم ینگ لائرز کے درمیان Moot Competition کا افتتاح بھی کرنا تھا۔ اس لیے میں انسدادِ دہشت گردی کے جیل ٹرائل سے پیشگی اطلاع دے کر غیر حاضر ہوا۔ تھانہ آر اے بازار راولپنڈی کا مقدمہ جسے GHQ حملہ کیس کے نام سے پکارا جا رہا ہے‘ راولپنڈی کی سینٹرل اڈیالہ جیل کے آڈیٹوریم میں دیر تک زیر سماعت رہا۔ اس کیس کی یہ عرفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کے مقدمے کو 190 ملین پائونڈ ریفرنس کا برانڈ نیم دیا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے اڈیالہ جیل میں القادر ٹرسٹ مقدمے کی سماعت کے دوران عمران خان گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے: بابر! 190ملین پائونڈ سٹرلنگ تو کبھی پاکستان کو قرض میں نہیں ملا۔ دراصل یہ میرے خلاف فیک نیوز چلانے والوں نے ایسا بیانیہ گھڑنے کی کوشش کی ناکام کوشش کی جسے میرے پاکستانیوں نے مسترد کر دیا۔ میں نے قیدی نمبر 804 کو یاد دلایا کہ یہ رقم ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اکائونٹ میں آج بھی ڈپازٹ موجود ہے۔ مقدمہ بنانے والے بدنیت ہرکارے اور بدبخت سرکار‘ دونوں سپریم کورٹ کو جاکر کیوں نہیں درخواست دیتے کہ پیسے اُن کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیے جائیں۔ پھر میں نے اُنہیں ایک ایسے ہی پرانے مقدمے کی کہانی سنائی جس پر ہم دیر تک ہنستے رہے۔
یہ اسی جمعرات کے رات تقریباً 8 بجے تک کا وقت تھا جب مجھے بتایا گیا کہ عمر ایوب کو اڈیالہ سینٹرل جیل کی بائونڈری سے باہر آتے ہوئے پنجاب پولیس کے ایک مسلح دستے نے گرفتار کر لیا ہے۔ میں نے سب سے پہلے قومی اسمبلی کے ذرائع سے پتا کروایا کہ کیا اسمبلی سپیکر نے اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرنے کی اجازت حکومت پنجاب کو دے رکھی ہے ۔ مگر اسمبلی ذرائع اس گرفتاری کی اجازت سے لاعلم تھے۔ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کو اس گرفتاری سے تین دن پہلے 24 نومبر 2024ء سے لے کر 29 نومبر تک اسلام آباد میں درج ہونے والے 14 مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری ATA کورٹ نمبر 1 اسلام آباد سے ملی تھی۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ مؤکل سمیت عدالت میں پہنچا تو پتا چلا کہ ایک FIR اور بھی ہے۔ اس نامعلوم FIR کا نمبر 1032 ہے‘ جسے مقامی تھانے کی پولیس نے اپنی طرف سے seal بند کر رکھا ہے۔1973 ء کے آئین میں موجود آرٹیکل 10 کے مطابق جس شخص کے خلاف مقدمہ درج ہو اُسے فوری طور پر FIR کی کاپی دے کر اپنی مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا آئینی حق دیا گیا ہے۔ مگر جس نظام میں احتجاج کے دوران مرنے والے نوجوانوں کی لاشیں دینے سے انکار کر دیا جائے اُس میں FIR کی کاپی ملزم کو نہ دینا کوئی بڑا جرم نہیں۔ کیونکہ پولیس رُولز اور ضابطہ فوجداری کے دونوں قوانین عوام پر ڈنڈے‘ گیس کے گولے اور گولیاں برسانے کو قانونی تحفظ دینے کے لیے بنائے گئے۔ یہ قانون بھی آئین کی طرح عوام کی حفاظت کے لیے نہیں بنے۔ اسی دوران ہماری ٹیم کے ایک وکیل نے انسدادِ دہشت گردی کے جج کو اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کی تحریری اطلاع دی جس پر اُسی رات عمر ایوب اور چار دوسرے گرفتار شدگان کو ٹرائل کورٹ نے پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ مگر رات ساڑھے دس بجے تک متعلقہ تھانہ اور دو نواحی تھانوں کے ایس ایچ او‘ ایک ایس پی کی نگرانی میں عدالتی حکم کو سبوتاژ کرنے میں جتے رہے۔ مجبوراً میں نے پریس ٹاک میں اعلان کیا کہ میں اپوزیشن لیڈرکے ATC کی ضمانتوں کے کاغذات اور پشاور ہائی کورٹ کے احکامات لے کر خود اڈیالہ جیل جا رہا ہوں۔ ہمارا قافلہ اڈیالہ جیل سے محض ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھا تو سڑک کے دوسری جانب سے پولیس کی 18‘ 20 گاڑیاں اپوزیشن لیڈر کو لے کر کینٹ ایریا کی طرف بھاگتی ہوئی نظر آئیں۔ ہم نے تھوڑی دیر میں اُنہیں جا لیا۔ اپوزیشن لیڈر کو حوالات کے بجائے پولیس لائنز راولپنڈی میں بند کر دیا گیا۔ اُس وقت تک پنجاب پولیس اُنہیں گرفتارکرنے کا جواز تلاش کر رہی تھی۔ پھر رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد پولیس کی خبر سوشل میڈیا پر آئی کہ عمر ایوب ضلع اٹک کے تین مقدمات میں مطلوب تھے‘ جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یوں یہ رات پنجاب پولیس کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے ایک بڑے دہشت گرد کی گرفتاری پر بین کرتی بیت گئی۔ اگلی صبح ATA کورٹ کے جج صاحب کے روبرو 9 بجے اپوزیشن لیڈر کو آخرکار پیش کر دیا گیا۔ میں نے عدالت کے سامنے تین گزارشات رکھیں۔ پہلی یہ کہ جن مقدمات میں عمر ایوب کو پکڑا گیا‘ وہ اُن میں پشاور ہائی کورٹ سے 19 دسمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔ دوسری‘ انسداد دہشت گردی راولپنڈی ڈویژن کی عدالت نوٹیفکیشن کی ذریعے سینٹرل جیل اڈیالہ میں لگتی ہے۔ جس کی حدود Pricintes سے اپوزیشن لیڈر کو ضمانت ملنے کے باوجود حبس بے جا میں لے لیا گیا‘ جو عدالتی احکامات کی کھلی توہین ہے۔ میری تیسری دلیل یہ تھی: ایک طرف حکومت اور اُس کے منشی روزانہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی مقدمات نہیں چلنے دے رہی‘ دوسری جانب جس پہلے مقدمے کا ٹرائل شروع کروایا گیا ہے اُس کے پراسیس پر پنجاب سرکار نے از خود شب خون مار دیا۔ یوں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر‘ جن کی پارٹی پارلیمان کی زبان میں گورنمنٹ اِن ویٹنگ کہلاتی ہے‘ وہ پنجاب پولیس کی حبس بے جا سے برآمد ہو گئے‘ وہ بھی دوسری بار عدالتی احکامات کے ذریعے۔
اس وقت پاکستان میں آئین تو گیا‘ باقی رہ گیا لاء وہ کسی مارشل کے پاس تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے جس طرح ہم کسی ایسی بادشاہی کی غلامی میں بستے ہیں جس کے حاکم خود کئی براعظموں کے بادشاہوں کی غلامی کے پاسبان ہیں۔ ایسے میں سرکاری منشیوں کی عیش ہے۔ تبھی تو ماجد جہانگیر مرزا کہتے ہیں:
بتائو! ایسے عالم میں
میں کیسے زلفِ جاناں پر کوئی تحریر لکھ ڈالوں
نئی اک ہیر لکھ ڈالوں
یہ میرا ہمنوا شاعر کمی کو پورا کر دے گا
مگر مجھ کو تو ستر سال سے سوئے ہوئے مردے جگانے ہیں
خدا پوچھے گا جب مجھ سے تو باندھے ہاتھ کہہ دوں گا
جو دیکھا تھا وہی لکھا‘ قلم سے شر کو ہے روکا
ضمیر اپنا نہیں بیچا‘ ضمیر اپنا نہیں بیچا!

اپنا تبصرہ لکھیں