اچھی حکومت کے لئے اچھی انتظامیہ؟

گزشتہ کالم میں ”اچھی حکومت“ کے لئے ”اچھی انتظامیہ“کی ضرورت پر زور دیا تھا،مناسب لگا کہ اچھی انتظامیہ کے بارے میں بھی کچھ بات ہو جائے، زیادہ دور نہ جائیں، ماضی میں جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے ایک بہت متحرک فعال،ذمہ دار، اہل، دیانت دار انتظامیہ بروئے کار تھی نتیجے میں ملک قیام کے فوری بعد ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا اور ترقی پذیر ممالک میں اس کا شمار ہونے لگا تھا، کیا وجہ ہے آج 77سال بعد ہماری معیشت کا انحصار قرضوں پر ہے، انصاف نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں،انتظامیہ دکھائی ہی نہیں دیتی،ملک میں جو سیاسی جماعت حکمران ہوتی ہے اس کی حکومت ہوتی ہے یا صاحبان اثرورسوخ کی،صاحب زر کا حکم چلتا ہے یا جرائم پیشہ افراد اور گینگسٹرز کا سکہ چلتا ہے، انتظامیہ کا نام انسانوں کے اس جنگل میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، وجہ یہ نہیں کہ اس دور میں اچھی انتظامیہ کے لئے افسروں کی کمی ہے، وجہ ہے آئین و قانون سے انحراف اور مداخلت بے جا۔

ایک نظر ترقی یافتہ ممالک کے انتظامی سسٹم پر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے وہاں اختیارات کی تقسیم نچلی سطح تک کر دی گئی ہے اور ہر انتظامی یونٹ اپنی آئینی اور قانونی حدود میں مکمل آزاد خود مختار ہے،صرف انتظامی حوالے سے ہی نہیں مالی اعتبار سے بھی با اختیار ہے،مرکزی سطح پر ملکی معاملات کو دیکھا جاتا ہے صوبے اپنی حدود میں انتظامی طور پر با اختیار،ضلع میں ضلعی انتظامیہ با اختیار،تحصیل،کاؤنٹی،ٹاؤن کی سطح پر ٹاؤن کمیٹیاں مالی اور انتظامی طور پر با اختیار اور ہر قسم کی مداخلت سے مبرا ہیں،مگر احتساب کا ایک مستقل اور مسلسل نظام ہے جس کو سربراہ مملکت سمیت ہر بااختیار ادارہ اور فرد جوابدہ ہے،اسی جوابدہی کا خوف ہر کسی کو راہ راست اور آئین و قانون قانون کی جکڑ بندیوں میں محصور کئے ہوئے ہے،آزادی ہے مگر مادر پدر نہیں،اختیار ہے مگر بے محابہ نہیں،اسی وجہ سے ان ممالک میں کبھی آئین پر جھگڑے ہوئے نہ ہی عدالتوں میں چیلنج کئے گئے اور اگر ایسی نوبت آئی تو عدالتی فیصلہ کو حتمی تصور کیا گیا،فیصلے ماننے سے کسی نے انکار کیا نہ فیصلوں پر تنقید ہوئی اور نہ جج صاحبان کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا،مطلب عدالتیں بھی اپنی آئینی حدود میں آزاد خود مختار،نظریہ ضرورت کا وہاں کوئی تصور ہی نہیں۔

ہمارے ہاں مگر عملدرآمد سے پہلے ہی آئین میں بنیادی ترامیم پلک جھپکتے میں کر دی جاتی ہیں،عدالت اعتراض کرے تو مقننہ کی بالا دستی کا راگ الاپا جاتا ہے،عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے برملا انکار اور فیصلہ دینے والے جج صاحبان کی کردار کشی کی جاتی ہے،یہ نوبت جسٹس منیر،جسٹس قیوم،جسٹس رفیق تارڑ،بھٹو کو پھانسی دینے والے بینچ میں شامل ججوں کے نظریہ ضرورت کے تحت اور حکمرانوں کے اشارہ ابرو پر کئے گئے فیصلوں سے آئی،ضیاالحق،پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو آئین کی چھتری دینے والے جج بھی اسی قبیلہ کے ہیں،عدالت حکومت پر نگران ادارہ ہے جہاں حکومت نے غلط روش اختیار کی عدالتیں از خود اختیار کے تحت حرکت میں آتی اور اس اقدام کی مزاحمت کرتی ہیں لیکن عدالت اگر حکمرانوں کی ماتحت بن جائیں تو اچھی حکومت کا تصورتک نہیں کیا جا سکتا۔

اچھی حکومت کیلئے اچھی انتظامیہ کا فارمولا صدیوں کا آزمودہ ہے،لیکن جس ملک میں انتظامیہ نام کی کوئی شے نہ ہو اسے پاکستان کہتے ہیں، اچھی انتظامیہ شروع ہوتی ہے،جان مال آبرو کے تحفظ سے،شہری کو ظلم اور ظالم سے نجات دلا کر اسے انصاف فراہم کرنے سے، ہر شہری کو بنیادی ضروریات زندگی اور روز گار کی فراہمی سے،تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی سے، اہم ترین مگر ان میں انصاف کی فراہمی ہے،اچھی حکومت ہو تو جنگی حالات میں بھی شہریوں کو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں آتا، ہمارے ہاں مگر گنگا الٹی بہہ رہی ہے،تحفظ اور انصاف کے بغیر شہری اپنی مدد آپ کے تحت زندہ ہیں،تحفظ اور انصاف بھی رشوت دیکر خریدا جاتا ہے،ان حالات میں بہترین انتظامیہ بھی ڈیلیور نہیں کر سکتی۔

مسلمانوں کے اپنے ماضی،اور آج ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ کا سرسری نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے بنیادی حقوق کی فراہمی اولین ترجیح ہے،اس میں جان و مال آبرو کا تحفظ اور فوری انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے،مروجہ نظاموں میں شہریوں کو تحفظ اور انصاف دینے کو ترجیح دی گئی ہے،اس ضمن میں قانوں نافذ کرنے والے ادارے پولیس اور عدالت کا اہم کردار ہے،صرف یہ دو ادارے اگر آئین وقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے فرائض انجام دیں تو کسی ملک کے 80فیصد مسائل نچلی سطح پر ہی حل کر لئے جائیں اور شہری مطمئن زندگی بسر کریں۔

اب ذرا مختصر سا جائزہ لیں ہمارے محکمہ پولیس کا جس کا کام شہریوں کوظلم جبر استبداد زیادتی سے تحفظ فراہم کرنا ہے،اس حوالے سے سوچتے ہی انسان پر خوف کی جھر جھری طاری ہو جاتی ہے،ظلم کی چکی میں پستا انتہائی مظلوم شہری بھی تھانے جانے سے گھبراتا ہے،اگر ضروری ہو تو اپنے علاقہ کے ایم این اے،ایم پی اے یا کسی معتبر انسان کا سہارا ڈھونڈتا ہے،اس لئے کہ پولیس اول تو ظالم کیخلاف رپورٹ ہی نہیں لکھے گی،لکھے گی تو خود ظالم سے رابطہ کر کے بتائے گی کہ فلاں شہری نے تمہارے خلاف رپورٹ درج کرائی ہے تھانے آؤ اور اگر کوئی صاحب اثر ورسوخ ہے تو خود اس کے آستانہ پر حاضری دیکر سودے بازی کرتے اور مظلوم کو ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، ابتدائی رپورٹ لکھنے میں بد دیانتی معمول ہے کسی کمزور شہری کی زور آور کے خلاف رپورٹ میں نرم دفعات لگائی جاتی ہیں،گواہوں اور شواہد کو کنفیوژ کیا جاتا ہے،چالان کمزور بنایا جاتا ہے،اول تو ظالم کو عدالت میں پیش ہی نہیں ہونے دیا جاتا ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے کہ عدالت خود مقدمہ ڈسچارج کرنے کا حکم صادر کر دیتی ہے یا ایک دو پیشیوں میں معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے، شواہد کو توڑ مروڑ کر صاحب زر کو ریلیف دیا جاتا ہے، بھاری رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے رشوت نہ ملنے پر ایسا دھانسو کیس بنایا جاتا ہے کہ غریب برسوں پیشیاں بھگتتا رہتا ہے اور جرم کی سزاسے زیادہ عرصہ بطور حوالاتی جیل میں گزار دیتا ہے،کبھی ضلعی پولیس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوتی تھی علاقہ مجسٹریٹ نگرانی کرتا تھا،جس کے باعث نچلے درجے کے پولیس افسر اور اہلکار بہت محتاط رہتے تھے،شہری انصاف نہ ملنے پر ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش ہو جاتے اور انصاف مل جاتا کہ ڈپٹی کمشنر ضلعی جج کے اختیارات بھی رکھتا تھا،مگر پولیس کا محکمہ ڈپٹی کمشنر سے واپس لے کر آئی جی کی ماتحتی میں دیدیا گیا اور محکمہ داخلہ کو بے بس بنا دیا گیا،مجسٹریسی نظام کا خاتمہ کر کے نچلی سطح پر ملنے والے انصاف کے دروازے بند کر دیے گئے، اشدضرورت پر گزشتہ دنوں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے اختیارات کچھ افسروں کو دئیے گئے مگر یہ لوگ قانون سے ہی نا بلد ہیں، لہٰذا معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا جا رہا ہے،یہ حال ہے انتظامی اداروں کا،ایسے میں اچھی حکومت کا تصور کیونکر ممکن ہے؟

اپنا تبصرہ لکھیں