اگر جنگ بڑھائی گئی تو پاک بھارت کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے!

وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ہلکی پھلکی جنگ کریں گے اور اُس کے بعد شانت ہو جائیں گے،،، لیکن نقصان دونوں اطراف کے عوام کواُٹھانا پڑے گا۔ یعنی بھارت نے 6اور 7مئی کی رات پاکستان میں 6مختلف مقامات پر میزائل حملے کیے جس میں 26 معصوم شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے ،یہ حملے احمد پور شرقیہ میں مسجد سبحان اللہ جہاں 13 شہری شہید ہوئے، مریدکے مسجد جہاں 3 افراد شہید ہوئے، مظفرآباد پر حملے کے نتیجے میں 3 شہری شہید ہوئے۔جواب میں تادم تحریر افواج پاکستان نے بھارت کے حملہ کرنے والے 5 طیارے مار گرائے ،جن میں 3 رافیل اور ایک مگ طیارہ مار گرایا،یہ طیارے بھارتی حدود بھٹنڈا، جموں، سری نگر سمیت مختلف علاقوں میں تباہ کیے گئے، بھارت کا ایک کمبیٹ ڈرون بھی مار گرایا ہے۔اور بقول بھارت کے ان حملوں میں درجنوں افراد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم ان جوابی حملوں کے بعد بھارت تو بیک فٹ پر چلا گیا مگر اس کے بعد پاکستان کی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہواجس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تمام سروسز چیف شریک ہوئے۔جس کے اعلامیے کے مطابق سول انتظامیہ نے پاک فوج کو جنگ کے حوالے سے مزید اختیارات سونپ دیے ہیں۔
خیر ابھی بھی یہ جو دونوں ملکوں کے سر پر جنگی جنون سروں پر منڈلا رہا ہے امید کرنی چاہیے کہ یہ زیادہ دیر قائم نہ رہے اور جو اس جنون کو ہوا دے رہے ہیں وہ بھی ہوش کے ناخن لیں۔ کیوں کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا جانی و مالی نقصان کر لیا ہے، کافی ہے، ہمیں پھر بھی احتیاط کرنی چاہیے، دونوں ملک درگزر سے کام لیں۔ چونکہ طاقت کا توازن دونوں طرف تقریباً برا بر ہے۔اور پھر اب تک یہ بھارت کو اب تک پتہ چل گیا ہوگا کہ پاکستان حیدرآباد دکن تو ہے نہیں کہ ہندوستانی افواج پیش قدمی کریں اور فتح کے ڈھول بجنے لگیں۔ ہمیں صرف اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ بھارت جنگ کی آڑ میں کہیں اُس کا اصل مقصد سندھ طاس معاہدے کو ختم یا بے اثر کرناتو نہیں ہے؟جس کا مطلب یہ نہیں کہ دریاﺅں کا پانی ایک دم موڑ لیا جائے گا مگر یہ مطلب ضرور ہے کہ لمبے دورانیے میں پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاﺅں سے ہندوستان چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے۔ جیسا کہ جہلم اور چناب کے پانیوں کے ساتھ حالیہ سالوں میں ہوتا رہا ہے۔ ڈیم بنانے اور اس انداز سے بنانے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہو، پاکستان ثالثی میں جائے اور وہاں سے کچھ حاصل نہ ہو۔ اور پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان کادھیان اس طرف کرکے بھارت سندھ طاس معاہدے کو رول اوور کردے اور راتوں رات ان دریاﺅں پر کام شروع کر دے۔ کیوں کہ میری ناقص اطلاعات کے مطابق بھارت نے ہمارے وفد کو ان دریاﺅں کا وزٹ نہیں کروایا جو پاکستان کے حصے میں آتے ہیں،،، اور یہ دورے سندھ طاس معاہدے کا حصہ ہیں تاکہ ایک دوسرے پر اعتماد قائم رہے۔ اور پھر بھارت نے بقول پاک فوج نیلم جہلم نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پر بھی حملہ کیا ہے تو ہمیں بجائے اس کے کہ بات کو بڑھاوا دیا جائے یا اُنہیں موقع دیا جائے کہ وہ ہمارے خدانخواستہ تربیلا و منگلا ڈیم پر حملہ کردیں۔۔۔ ہمیں اس حملے کی عالمی سطح پر آواز اُٹھانی چاہیے،،، تاکہ یہ بھارت کے لیے ہزیمت یا عالمی سبکی کا باعث بنے ۔ اور پھر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کے میزائل ہماری حدود تک پہنچ تو گئے ناں،،، اور پھر ہمارے میزائل اُن کی حدود میں بھی چلے گئے،،، اور پھر اگر بھارت نے کھربوں ڈالر اسرائیل کو دے کر یا امریکا کو دے کر اسرائیل طرز کا میزائل ڈیفنس سسٹم خرید لیا تو پھر کیا ہوگا؟ پاکستان کو بھی یہ خریدنا پڑے گا؟ اس سے دونوں ملکوں کے دفاعی بجٹ میں ہوش ربا اضافہ ہوجائے گا۔۔۔ کیا دونوں ملک اس کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
لہٰذابہتری تو اسی میں ہے کہ جنون کے بادل چھٹ جائیں۔ وقت بدل چکا ہے اور قومی سوچ کے کئی زاویے فرسودہ ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کی ہی مثال لے لیجئے‘ کتنی تبدیلی وہاں آ چکی ہے۔ کئی اقدامات جو شہزادہ محمد بن سلمان نے کیے ہیں کچھ سال پہلے اُن کا کوئی سوچ سکتا تھا؟ آگے کے مسائل اور نوعیت کے ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ تو ہے ہی‘ پانی کا مسئلہ بنے گا او رصرف سندھ طاس معاہدے کے ختم ہونے سے نہیں بلکہ ہمالیہ کی برفوں کے پگھلنے سے پانی کا مسئلہ مزید گمبھیر ہوگا۔ ہمالیہ کے پہاڑ اور وہاں کی برف برصغیر کے لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ چاہے انڈس بیسن ہو یا گنگا کا وسیع میدانی علاقہ ان خطوں کی بقا ہمالیہ کی برفوں پر منحصر ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے ان برفوں کی پگھلن بڑھ رہی ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچیں ‘ جنون تو آنی جانی چیزہے۔ ہمیں دور کی سوچ رکھنی چاہیے۔ دونوں ملکوں کو پونے دو ارب آبادی کا خیال رکھنا چاہیے، اگر جنگ بڑھتی ہے، تو دونوں اطراف کے بے گناہ لوگ مارے جائیں گے،،،اور پھر اگر خدانخواستہ جنگ بڑھتی ہے تو پھر نہ تو بھارت کی تنصیبات محفوظ ہوں گی، اور نہ ہی پاکستان کی۔ میرے خیال میں اب اگر بھارت بیک فٹ پر چلا گیا ہے تو ہمیں بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے،،، کیوں کہ ہم دنیا کو یہ دکھا چکے ہیں اور ثابت بھی کر چکے ہیں کہ ہماری افواج دشمن کے خلاف کیا کر سکتی ہیں۔
اس لیے دونوں ملکوں کو اختلافات بھلا کر خاص طور پر بھارت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے،،، اس سے دونوں ملک کے عوام ترقی کریں گے، خوشحال ہوں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ دیگر دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ ہمیں باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہیے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دونوں ملک سمگلرز کو فائدہ دے رہے ہیں،،، یعنی 2014ءسے 2024ءکے دوران سمگلنگ میں تین سے چار گنا اضافہ ہوا اور غیر قانونی تجارت 3.8فیصد سے بڑھ کر 11.2فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد 2024ءمیں حکومت کو سمگلنگ کی وجہ سے 500ارب روپے کا ریونیو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔اور یہ سمگلنگ کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک ایران ، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ ہورہی ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے تجارت کرے بھی تو کس نہج پر کرے کیوں کہ پاک بھارت تجارت مسئلہ کشمیر اور دونوں ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ جس کا سارا فائدہ چین اُٹھا رہا ہے۔ معذرت کے ساتھ ، خواہ چین ہمارا کتنا ہی اچھا دوست ہے،،، اور اس میں دو رائے بھی نہیں ہیں، مگر وہ ہمارے ساتھ سب سے پہلے تجارت کو ترجیح دیتا ہے۔
بہرحال ہمیں یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ جب سے مودی سرکار وجود میں آئی ہے، پاک بھارت تعلقات نارمل نہیں ہوسکے۔ خاص طور پر ااگست2019ءمیں پلوامہ حملے کے بعد اب تک تعلقات مکمل طور پر معطل ہوگئے تھے ،اور تجارت بھی نہ ہو نے کے برابر رہ گئی تھی لیکن سنا ہے کہ آج بھی 800/900اشیاءبھارت سے سمگل ہو کر پاکستان پہنچ رہی ہیں، جس سے پاکستان کو شاید کوئی فائدہ نہ ہو مگر مافیا اس سے فائدہ ضرور اُٹھا رہا ہے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھٹو نے طیش میں آکر شراب پرپابندی لگا دی ، جس کا نقصان یہ ہوا کہ آج ہر گلی محلے میں شراب فروخت ہو رہی ہے مگر حکومت سے چھپ چھپا کر اور اربوں روپے کا فائدہ سمگلنگ کرنے والے اور غیر قانونی فروخت کرنے والوں کو ہو رہا ہے۔
لہٰذاسوال یہ ہے کہ آپ کے حالات جس مرضی نہج پر پہنچ جائیں، مگر ایک حد ضرور مقرر کریں کہ ہم نے اس حد سے آگے نہیں جانا۔ جیسے دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے معاہدے ہیں،،، بالکل اسی طرح ہمیں باقی چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے،،، کہ ہمیں شہری آبادیوں پر حملے نہیں کرنے،،، عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ اور ساتھ تجارت بھی ہمیشہ بحال رکھنی ہے۔ یہ معاہدے بالکل چین بھارت تعلقات کی بنیاد پر ہونے چاہیے۔کیوں کہ دونوں ممالک کے حالات جتنے مرضی کشید ہ ہوں مگر وہاں تجارت نہیں رکتی۔ بلکہ گزشتہ سال انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے لیکن دونوں طرف سے اس پر زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے، مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔حالانکہ یہ دوطرفہ تجارت جو 2001 میں 1.83 ارب امریکی ڈالرز تھی وہ گزشتہ سال کے 11 ماہ میں بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے کاروبار کے لیے ایک بڑا موقع ہے کیونکہ دونوں ممالک نے اپنی تجارت کے لیے تعلقات کو بہتر کیا ہے۔پھر چین اور امریکہ عالمی سیاست کے میدان میں کھلے حریف ہیں امریکہ چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسکا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں امریکہ نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکہ کو دے رکھے ہیں مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے ۔ابھی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو انہی معاہدوں کی وجہ سے بیک فٹ پر جانا پڑا۔ ورنہ وہ عالمی معاشی جنگ چھیڑ چکے تھے۔
بہرکیف ہمسایوں کے ساتھ مسئلے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ ہمارے مسائل افغانستان سے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات بات پر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں۔جیسے پہلگام واقعہ پر بھارت اس نہج پر پہنچ گیا کہ اُس نے پاکستان کی سلامتی کو للکارا اور جواب میں اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے خیال میں ایسے ایڈونچرز سے عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔۔۔ لہٰذااگر آئندہ بھی اس قسم کی کوئی چھیڑچھاڑ ہوئی تو میں یہی کہوں گا کہ دونوں ملکوں کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے،،، جسے وہ یقینا انا کی تسکین کے لیے ہمیشہ کیلئے کھو دیں گے !

اپنا تبصرہ لکھیں