ایک اور نیا سال ! دائرے کے اندر ایک اور سفر!

ہر سال جنور ی کے پہلے ہفتے انسان جتنا Motivatedہوتا ہے اتنا سال میں کسی دن نہیں ہوتا۔ اس دن ہر بندہ ایلون مسک، مارک زکر برگ، جیف بیزوس یا بل گیٹس بن کر سوچ رہا ہوتا ہے،اس سال تو ملین ڈالر کما ہی لینے ہیں لیکن جوں جوں دن گزرتے ہیں، انسان ڈاﺅن ہونا شروع ہو جاتا ہے، یہ فطری عمل نہیں بلکہ ہمارا انرجی لیول ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم گزرے سال کا احتساب کریں یا چلیں گزرے سال کے حوالے سے غورو فکر ہی کر لیں تو انسان اپنے آپ کو Improveکرنے کے بارے میں ضرور سوچ سکتا ہے۔ مثلاََ یہ سوچا جائے کہ کاروبار کتنا پھیلا، ملازمت میں کتنی ترقی ہوئی، نیا گھر، نئی گاڑی یا کوئی چیز نئی خریدی یا نہیں، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے کتنے لوگوں کو اُن کی زندگی بہتر بنانے میں مدد کی، کیوں کہ یہ ہے وہ پیمانہ جس پر ہم نے زندگی کو پرکھنا ہے پھر معلوم ہوگا کہ آیا ہم ایک بامعنی زندگی گزار رہے ہیں یا کسی مشین کی طرح بس گھومتے جا رہے ہیں۔ خیر 2024ءجیسا تیسا کرکے گزر ہی گیا، میں نے پچھلے کالم میں کہا تھا کہ یہ ن لیگ کا سال رہا، جس میں اُس نے بڑی ”مہارت “ کے ساتھ آئینی ترامیم کرکے ماحول کو اپنے حق میں کیا۔ اور اب جبکہ نئے سال کا سورج طلوع ہو چکا ہے، اور اس سال بھی سیاسی طور پر آپ کوئی اچھی اُمید نہ لگائیں کیوں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی تین سال کے لیے جج تعینات ہو چکے ہیں جبکہ آرمی چیف کی مدت بھی بڑھ چکی ہے، اس لیے تحریک انصاف کے لیے کسی بڑے بریک تھرو کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں!
لیکن اس کے برعکس بطور قوم ہم اس وقت جن معاشی ،سیاسی اور لاقانونیت کے مسائل سے دوچار ہیں ہم فی الوقت اُن سے نکلنے کی کوئی مربوط حکمت عملی نہیں بنا رہے۔ کرم ایجنسی میں تین ماہ سے مین شاہراہ ہی بند ہے، ہر گھر میں اسلحے کے ڈھیر ہیں، فرقہ واریت اور بیرونی مداخلت کی وجہ سے وہاں گزشتہ دو ماہ سے سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں، اب تو وہاں کے حالات یہ ہیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ اُن کے کتنے بندے (مرنے والے) ہوگئے ہیں اورہمارے کتنے ہیں؟ لہٰذااس نئے سال میں بھی، امکان یہی ہے کہ ہم غلطیاں کریں اور بے شمار کریں گے، لیکن خدارا کیا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اس نئے سال میں ہم ان غلطیوں سے جان چھڑوالیں جو گزشتہ 77 برس سے کئے جارہے ہیں۔ کیا ہم ملک میں امن و امان کے حوالے سے ہی کوئی مربوط حکمت عملی بنا لیں، یا ملک کے ہر خطے کے لیے الگ الگ امن و امان کی پالیسی بنا لیں تاکہ یہ ملک ہر روز کسی سانحے سے بچ سکے۔ اور پھر اس سال ہم یہ تہیہ کریں کہ ہم اپنی ذات سے بلند ہوں گے اور ملک کو ترجیح دیں گے۔ عوام کی منشا ‘ مقدم رکھیں گے اور جعلی اورآرٹیفشل نظام حکومت کے ذریعے ان کے سر وں پر نیا نظام تھوپنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ 1973ءکاآئین مقدس ہے کیونکہ یہ ملک کی واحد دستاویز ہے جس پر قوم کا اتفاق بھی ہے اور اس کے ذریعے تمام صوبوں نے وفاق سے اپنی منشا پر مبنی سوشل کنٹریکٹ کررکھا ہے۔ اسی لیے آئین پر بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے کام کریں گے، آئین میں جہاں ضروری ہے ترامیم بھی کریں، مگر اس کا حلیہ بگاڑنے سے اجتناب کریں۔
جہاں تک ملکی معیشت کا معاملہ ہے تو رواں سال اس میں کسی بھی انقلابی تبدیلی کی امید نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے اپنی معیشت کو ایسے چلایا ہے کہ اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ جو اکانومی ابھی تک اپنے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طریقے سے قابو کرنے کی جستجو میں ہوگی ‘ وہ میکرو اور مائیکرو اکنامکس کے حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی؟ معیشت کے میدان میں ہی ہم نے شوکت عزیز، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل، عبدالحفیظ شیخ ، اسد عمرسے لے کر محمد اورنگ زیب جیسے ٹیکنوکریٹس آزما کر دیکھ لیے اورآج ہم جس کرائسس میں گھرے ہوئے ہیں وہ بھی انہی کی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔ کیا کبھی ان معاشی سورماﺅں نے پاکستان کو خود انحصاری کی جانب لیجانے کی کوشش کی؟ جیسے من موہن سنگھ (مرحوم ) نے بطور وزیرخزانہ بھارت میں ہماری اوپن مارکیٹ پالیسیوں کی تقلید کی اور بھارتی معیشت کو ٹیک آف کروا دیا لیکن ہم وہیں کے وہیں رہ گئے، کیوں کہ ہماری پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ نجانے پاکستان میں اوپن مارکیٹ اور خودانحصاری جیسے بنیادی معاشی اہداف کا حاصل کرنا اتنا مشکل کیوں بنادیا گیا ہے اور ہم کب اپنا کشکول توڑنے میں کامیاب ہوں گے؟ کیوں کہ اس وقت ہمارا حال ہے نہ مستقبل! 77برس 77صدیوں کی طرح گزرے ہیں۔ بیرونی قرضے، دس دس برس پر محیط کئی آمرانہ ادوار! دہشت گردی کے جلو میں لاشیں‘ آگ اور دھواں! نقب زنی کی ملک گیر وارداتیں‘ چوریاں اور ڈاکے۔ منی لانڈرنگ! سرے محل۔ ایون فیلڈ۔بنی گالے۔ رائیونڈ۔ گجروں‘ بزداروں اور گوگیوں کے پھیلتے مہیب سائے۔گیٹ نمبر چار کے ساتھ تعلقات کی پینگیں! توشہ خانے۔ مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی کامیاب کوششیں۔ جان لیوا گرانی ! یہ ہے ہماری پون صدی کی تاریخ! یہ ہے ہماری تقویم! یہ ہے ہمارا کیلنڈر جس کے ہر مہینے کی ہر تاریخ پر کانٹا ( کراس) لگا ہوا ہے!
بہرحال ہم اس سال بھی کوئی نئی اُمید نہیں باندھ رہے،کیوں کہ آج بھی اُنہی کی حکومت ہے جو گزشتہ 77سالوں سے کرتے آئے ہیں، لیکن وہ آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ جو کام اُن کے کرنے کا نہیں ہے تو وہ کیوں کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک ڈاکٹر اگر بلڈنگ بنائے گا یا ایک انجینئر اگر آپریشن کرے گایا ایک فیشن ڈیزائنر سیاست میں آئے گا تو وہ کیا ہی اچھا کام کر سکیں گے۔ لہٰذاہمارے اداروں کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جو کام اُن کے کرنے والے نہیں ہیں وہ جمہوری لوگوں کو کرنے دیں، ہر گز ایسا نہ کریں کہ نئے تجربات کریں۔ لیکن مجھے اُمید نہیں کہ اس سال بھی کوئی نیا تھنک ٹینک بنے گا یا اس سال بھی کوئی ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔ بلکہ یہ تو ہمارا ہر سال کا رونا ہے کہ کس سال نے ہماری اُمیدوں کو بار آور کیا ہے ؟ ہماری معیشت کو آزاد کیا ہے؟ ہماری زراعت کو قابلِ رشک کیا ہے ؟ ہماری سیاست کوراست باز کیا ہے؟ ہماری برآمدات کو زیادہ اور درآمدات کو کم کیا ہے؟ ہماری جمہوریت کو خالص کیا ہے؟ ہمارے اداروں کو مضبوط کیا ہے؟ ہماری پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کیا ہے؟ ہماری بیورو کریسی کو عزت دار کیا ہے؟ ہماری سرحدوں کو سمگلنگ کی نحوست سے چھٹکارا دیا ہے؟ کسی سال بھی نہیں!بلکہ جب بھی دسمبر ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے‘ ہمیں نیا سال اُس پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے جو ریگستان میں سفر کرنے والے پیاسے ساربان کو دکھائی دیتا ہے! پھر جیسے جیسے نیا سال ادھیڑ عمر کی طرف بڑھتا ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو سراب تھا! وہی چٹیل‘ لق و دق صحرا! وہی ہڈیاں اور کاسہ ہائے سر ! ہم 77 سال سے ہر نئے سال کو پانی سمجھتے آئے ہیں ! ہر بار نیاسال سراب ثابت ہوتا ہے! مستقبل قریب میں کوئی تغیر رونما ہوتا نہیں نظر آرہا!یہی نیا سال ہمارے حریفوں اور حلیفوں کے لیے کلیدِ کامرانی بنتا چلا آ رہا ہے! بھارت میں اشیا و خدمات کی قیمتیں دیکھ لیجیے! زر مبادلہ کے ریزرو دیکھ لیجیے! ڈالر کی قیمت دیکھ لیجیے۔ بھارت کے لیے ہر نیا سال بہتری لے کر آتا ہے، کوریا، ویتنام، سنگا پور، تائیوان، ملا ئیشیا، یو اے ای یہ سب ملک ہمارے زیر دست تھے۔ ہم ان سے آگے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہر نیا سال ہمیں پیچھے دھکیلتا رہا! آج ہم نشانِ عبرت ہیں! قوموں کی برادری میں ہماری عزت ہے نہ وقعت!
ہم تو جو کرنے کے کام ہیں،ہم وہ بھی نہیں کر پا رہے، یعنی آپ باقی ساری باتیں چھوڑ دیجیے۔ صرف ٹریفک کا مسئلہ لے لیجیے۔ کیا کسی نئے سال نے ہماری ٹریفک کو مہذب دیکھا ہے ؟ اس میں کسی غیر ملکی مدد کی ، کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف ٹریفک پولیس کی دیانت داری اور فرض شناسی درکار ہے۔ مگر ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں شمار ہوتی ہے۔ وحشت اور ہلاکت کا بے رحم کھیل ! سڑکوں پر گویا خانہ جنگی ہو رہی ہے! سول وار کی صورت حال ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں! ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں قتلِ عام کر رہی ہیں۔غیر ملکی دیکھتے ہیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ کروڑوں موٹر سائیکل وبا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ موٹر وے کی ٹریفک مثالی سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ بھی تنزل پذیر ہو چکی ہے۔ لین کی پابندی ختم ہو رہی ہے! کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ایک نیا سال اس جیسے کام کے لیے ہی وقف کر دے! کہیں سے تو اصلاح کا کام شروع ہو جائے! مگر ہر سال ٹریفک کی ہلاکتوں کی تعداد گزرے ہوئے سال سے زیادہ ہو رہی ہے۔
بہرکیف ہم ایک شیطانی دائرے( vicious circle) میں پھنسے ہوئے ہیں! نہ جانے کب تک پھنسے رہیں گے! سال آتے اور جاتے رہیں گے! نیا سال مبارک کی آوازیں بھی آتی رہیں گی! حسب ِتوفیق نیو ایئر پارٹیاں بھی منائی جاتی رہیں گی! مگر جہاں تک معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ مواصلات ‘ تعلیم اور سرداری نظام کا تعلق ہے‘ سب کچھ وہی رہے گا اور وہیں رہے گا!بقول شاعر
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
اس لیے ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے، اور اب جبکہ آپ نے جیسے تیسے کرکے حکومت حاصل کر لی ہے تو اُمید ہے آپ کچھ عوام کام بھی کریں، بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ اس سال ہماری تین بڑی ترجیحات ہونی چاہئیں: عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اُس کا حق دینا، معیشت کو درست راہ پر گامزن کرنا اور دہشتگردی کی عفریت کو کچلنا۔ یہ مشکل امر ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر سارے فریق ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے تو مسائل کا حل ناممکن نہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اگلے برس بھی ہم یہی رونا رو رہے ہوں گے۔ فرق صرف یہی ہوگا کہ تب تک ہم مزید مواقع ضائع کرچکے ہوں گے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں