ایک اچھی خبر اور دِل کی دکھی آواز!

جی تو چاہتا ہے کہ اپنے مہربان مولانا فضل الرحمن سے چھیڑ چھاڑکی جائے کہ حضرت سے بہت عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی اُن کی صدا بہار مسکراہٹ اور زور دار قہقہے سنے ہیں، لیکن کیا کِیا جائے۔ گزشتہ روز شام کا ذکر سامنے آیا تو دِل کی جلن کا اظہار کرنا پڑا اور آج تو ایک ایسی خبر سامنے ہے جس کے لئے ہم مسلسل عرض کرتے چلے آ رہے ہیں۔تازہ ترین یہ ہے کہ تحریک انصاف کی بیرون اڈیالہ قیادت نے ایک بہتر عمل کیا ہے، اول تو ایوان ہائے اعلیٰ اور قومی میں بات کرنے اور کارروائی میں حصہ لینا شروع کر دیا، ہنگامہ آرائی اور شور شرابے سے گریز کیا، یہی پارلیمانی نظام کی صفت ہے کہ اس طرح حزبِ اختلاف ہی نہیں،بلکہ حزبِ اقتدار کے اراکین بھی عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں۔حزبِ اختلاف کو تو یہ بھرپور موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی شکایات کا ازالہ کرانے کی کوشش کر سکے،اِس کے ساتھ ہی یہ اطلاع تو بڑی ہی حوصلہ افزاء ہے کہ حزبِ اختلاف نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ یہ طے کیا کہ اقتدار و اختلاف کے درمیان چُنی دیوار گرا کر بات چیت شروع کی جائے کہ قومی و عوامی مسائل کا حل مل سکے۔اِس سلسلے میں حزبِ اقتدار کی طرف سے خوش آمدید بھی کہا گیا، لیکن بعض اعتراض بھی ہوئے ہیں ہم جیسے صلح جُو لوگوں کی تو یہی درخواست ہے کہ براہِ کرم! اگر کوئی اِس راہ میں مثبت حصہ نہیں ڈال سکتا تو کم از کم خاموش رہ کر ہی اِس سلسلے کو بڑھنے کا موقع مہیاکرے کہ ابھی تک بات چیت کے ارادے ظاہر ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھنا ہے اِس لئے اعتراض اور جملہ بازی سے ماحول کو خراب نہ کیا جائے تاکہ کوئی اچھا اور بہتر نتیجہ نکل سکے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ان صفحات میں امن واستحکام اور معاشی بہتری کے لئے کتنی کوشش کی گئی کہ مذاکرات شروع کئے جائیں،لیکن ایسا ہو نہیں رہا تھا، بابا بھی گرم اور بابے کی گولیاں بھی گرم تھیں اور چلی آ رہی ہیں۔ یہ تو اللہ ہی کا کرم ہے کہ اب نوبت بات چیت شروع کرنے کے ارادے تک آ گئی ہے تو اسے بیانات کے ذریعے شک کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، بلکہ کوشش کی جائے کہ مثبت نتیجہ نکلے،اس کے لئے پہلی کوشش تو یہی ہونا چاہئے کہ جو اعتراض اور تنقیدی سلسلہ الزامات اور جوابی الزام تک پہنچ چکا تھا اُسے بلندی سے پستی کی طرف لایا جائے اور زبانوں کو کنٹرول کیا جائے کہ اِس سے حالات بہتر ہوں گے، الزام تراشی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے، اگر یہی طریقہ سوشل میڈیا اور میڈیا والے بھی اپنا لیں تو بہتوں کابھلا ہو گا، کہ اکثر اوقات سوال کے جواب میں ایسی بات آ جاتی ہے کہ سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے،اس لئے اس اصول پر قائم ہونا چاہئے کہ دشنام طرازی اور بلا جواز الزام نہیں لگائے جائیں گے۔

یہ تو ملّاں نصیحت والی بات ہے اور اسے فضیحت میں تبدیل نہیں کروں گا اِس لئے وہی بات دہراتا ہوں جو سبھی کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں ہوتا اور اس میں کوئی کلام نہیں ہے،میں وجوہ اور مداخلت کا ذکر کئے بغیر کہوں گا کہ میرا ملک جو وسائل سے مالا مال ہے۔ طویل عرصہ سے جاری محاذ آرائی کے باعث ترقی کی منازل طے کرنے کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ملک جب جمہوری اور اصولوں پر جدوجہد کے بعد ملا تو انگریز نے ڈنڈی مار دی، باؤنڈری کمشن نے بوجوہ ایک ایسا فیصلہ دیا جس کی وجہ سے نہ صرف خونریزی ہوئی، بلکہ کشمیر کے مستقبل پر بھی مہر لگ گئی۔ سرحدوں کے دوبارہ تعین اور گورداسپور سے واہگہ پر لکیر آ جانے کی وجہ سے بھارت کو کشمیر کا راستہ ملا اور ہمارے مجاہدین کو سر دھڑ کی بازی لگا کر آزاد جموں و کشمیر کے نام والا موجودہ حصہ آزاد کرانا پڑا۔باؤنڈری کمشن ہی کے ڈنڈی مار فیصلے کی وجہ سے آبادی کا تبادلہ پُرامن نہ ہوا اور خون کی ندیاں بہنے والا سلسلہ ہوا،خاندان کے خاندان کٹ گئے، خون کے رشتے بچھڑ گئے۔ نوجوان اور غیرت مند بچیوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر عزت کے تحفظ میں جانیں قربان کیں، آج بھی کبھی کبھار 1947ء کے بچھڑے ملتے ہیں تو ایک دردناک باب وا ہو جاتا ہے جو گھڑیال کی طرح ہمیں منادی دیتا ہے کہ سنبھل جاؤ اور وہ وقت یاد کرو، جب اس آزادی کے عوض جان و مال اور عزت کی قربانیاں دی تھیں۔

میں معمول سے ہٹ کر یہ یاد دِلا رہا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان خوار ہیں۔ پاکستان کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ محافظ کا کردار ادا کرے گا، لیکن بدقسمتی سے ابتداء ہی سے یہاں حریفانہ کشمکش شروع ہوئی جس نے وہ ضروری استحکام نہ آنے دیا جو کسی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اس حوالے سے چین کی مثال دی جاتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ”گراں خراب چینی سنبھلنے لگے، ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے“ یہ گراں خواب ایسے سنبھلے کہ آج پاکستان سمیت کئی اور ممالک کو بھی سنبھالنے کے لئے تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ ہم جو ہنر، ذہانت اور محنت سے مالا مال اور ملک قدرتی وسائل سے بھرا ہوا ہے، گراں خواب ہی نہیں،بددیانتی کے نشہ میں غرق ہو چکے ہیں۔ مفاد پرستی اتنی غالب آ گئی کہ قومی عزت و وقار کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا،آج حالت یہ ہے کہ ہمارا بچہ بچہ مقروض ہے،ملک ایک ایٹمی قوت اور دنیا کی بہترین، بہادر، جانباز اور تربیت یافتہ فوج کا حامل ہے، لیکن حالت یہ ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے اتنے دب چکے ہیں کہ اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے خوف آتا ہے کہ یہ قرض کیسے اُترے گا اور معاشی عدم استحکام اور بدحالی کی وجہ سے تو سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور آج دنیا دو متوازن طاقتوں کی بجائے یونی پولر(واحد قوت) بن چکی ہے اور امریکہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتا چلا جا رہا ہے اس کے نزدیک انسانیت، دفاع اورر خدمت وہ ہے جسے وہ جائز قرار دے۔اسرائیل کی ناجائز ریاست کو امریکی تحفظ اور تعاون ملا ہوا ہے اور وہ اِس وقت اسلامی دنیا کے سینے پر مونگ دل رہا ہے، مسلسل توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے اس کو کسی اقوام متحدہ، جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور ہیگ جیسی عالمی عدالت کی پرواہ نہیں۔ وہ سب قراردادوں اور فیصلوں کو پاؤں تلے روند کر انسانی نسل کشی پر عمل پیرا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں، مسلمان ممالک آبادی اور ثروت میں اس دجالی قوت سے کہیں زیادہ ہیں لیکن ٹیکنالوجی، امریکی منصوبوں اور تعاون کی وجہ سے زبانی مذمت اور حمایت تک محدود ہیں اب اگر ہم پاکستانی یہ سب جانتے بوجھتے اور دیکھتے ہوئے بھی ملک کے اندر قومی یکجہتی کی فضاء پیدا نہیں کر پا رہے تو یہ کس کا قصور ہے۔ یہ سرا سر ہم سب کی خود غرضی ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیائے اسلام کے ساتھ کتنا جل فریب اور ظلم ہو رہا ہے،اس کے باوجود ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں تو پھر ہم خود اللہ کے قہر کو آواز دے رہے ہیں؟ اب بھی وقت کہ زبانی اتحاد کا درس دینے کی بجائے، سب کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا چاہئے، ورنہ جو ہونا ہے، وہ تو کاتب تقدیر نے لکھ دیا ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں