تحریک انصاف نے اس وقت اپنے بانی کی جانب سے پھرپور احتجاج کی 24نومبر کی ”لاسٹ کال“دی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اس بار اُن کی آواز دنیا کے ایوانوں تک پہنچے گی، مگر صاحب! ایسا ہونے کے چانسز 5فیصد سے بھی کم ہیں۔ اس لیے بانی تحریک انصاف فی الوقت ”ڈیل“ کریں اور باہر چلے جائیں !کیوں کہ اُن کے لیے اس سسٹم میں کوئی گنجائش نہیں ہے، آپ اس خطے کے لیے لاکھ قربانی دے دیں یہ کبھی تاریخ میں آپ کو امر نہیں ہونے دیں گے۔ کیوں کہ یہ خطہ شروع ہی سے ”پاورز“کے ساتھ چلتا رہا ہے، یعنی یہاں کے لوگشعر کے اس مصرعے پر یقین رکھتا ہے کہ
چلو تم ادھر کو ہَوا ہو جدھر کی
اس ”لاجک“ کو سمجھنے کے لیے آپ زیادہ دور نہ جائیں اور صرف تحریک انصاف میں موجود بانی کے علاوہ مین قیادت کو ہی دیکھ لیں کہ وہ ہمیشہ پاور کے ساتھ رہی ہے۔ آپ شاہ محمود قریشی کو دیکھ لیں جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی تو اُس وقت وہ وزیر خارجہ تھے، بعد میں تحریک انصاف کے دور میں بھی وزارت خارجہ ہی اپنے پاس رکھی۔ فواد چوہدری کو دیکھ لیں انہوںنے اپنی سیاست کا آغاز ق لیگ سے کیا، اس کے بعد پرویز مشرف کے ترجمان بن گئے،2012ءمیں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور کہا کہ ان کے خاندان کی جڑیں پیپلز پارٹی میں ہیں۔لیکن بعد میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ اعظم خان سواتی جمعیت علمائے اسلام سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے، عمر ایوب کو دیکھ لیں، پہلے وہ ق لیگ میں تھے، پھر ن لیگ میں آئے وزراتیں لیںاور پھر تحریک انصاف میں اُنہیں بجلی و پانی کی وزارت دی گئی۔ بیرسٹر گوہر پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف میں آئے۔ پھر آپ بہت سے پی ٹی آئی رہنماﺅں کو دیکھ لیں جو اقتدار میں تو تحریک انصاف کے ساتھ تھے، مگر جیسے ہی حکومت چھینی گئی وہ بھی دائیں بائیں ہوگئے۔ ان میں نمایاں فیاض الحسن چوہان، اسد عمر، جہانگیر ترین، فردوس عاشق اعوان، پرویز خٹک، عمران اسماعیل، خسرو بختیار، فیصل واﺅڈا، عثمان ڈار، مراد راس، عون چوہدری، فرخ حبیب، علیم خان،ملک امین اسلم، جمشید چیمہ، ابرارالحق سمیت سینکڑوں اراکین جو تحریک انصاف کے اقتدار میں اُن کےساتھ موجود تھے، مگر وہ آج بھی ”پاور“ کی تلاش میں ہیں۔ آپ یہی نہیں ن لیگ، پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کو دیکھ لیں، بہت سے ایسے لوگ آپ کو نظر آئیں گے، جو ہمیشہ ”حکومت وقت“ کا ساتھ دیتے ہیں، آپ ایم کیو ایم کو دیکھ لیں گزشتہ تین دہائیوں سے ہمیشہ پاور کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔
اور پھر اس خطے میں اگر کہیں لڑائیاں ہوئی بھی ہیں تو وہ صرف اپنے ”دفاع“ کے لیے تھیں،یہ اس لیے بھی ہے کہ یہ خطہ اناج سے مالا مال رہا ہے، ڈاکو یا دوسری ریاستیں یہاں مال لوٹنے کے لیے آتی تھیں، یہاں کے لوگ کبھی کسی لڑائی میں نہیں پڑتے، پرائی لڑائی میں تو بالکل نہیں۔ آپ حالیہ تاریخ کو پڑھ لیں اور بتائیں کہ جب بھٹو کو شہید کیا گیا تو کون نکلا؟ جب نصرت بھٹو کو مارا گیا تو کون نکلا؟ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو کون نکلا؟ وہی نکلے جو سڑکیں بلاک کرنے والے تھے۔ اس کے علاوہ کلثوم نواز نے مشرف مارشل لاءکے دوران ماریں کھائیں، اُن کی گاڑی کو اُن سمیت لفٹر نے اُٹھا لیا، تو اُن کے لیے کون باہر نکلا؟ لہٰذاپنجاب والوں سے معذرت کے ساتھ ابھی بھی اگر تحریک انصاف والے احتجاج کی کال دیتے ہیں تو آپ خود دیکھ لیا کریں کہ سب سے زیادہ تعداد پختونوں کی ہوتی ہے، لیکن پنجاب سے کوئی نہیں نکلتا۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پنجاب والے خان صاحب کے ساتھ نہیں ہیں، بلکہ وہ دل و جان سے اُن کے ساتھ ہیں، اس کا عکس 8فروری کے الیکشن میں بھی دنیا نے دیکھا۔ مگر یہ احتجاج میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ اپنے تعیں مذمت بھی کریں گے، ایک دوسرے کے ساتھ بحث و مباحثے میں بھی بھرپور حصہ لیں گے، مخالفین کو بدعائیں دینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کو یا حکومت کو دل ہی دل میں برا بھلا بھی کہیں گے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ آپ کے لیے نکلیں گے تو یہ کسی خواب سے کم نہیں ہے۔
میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ ہم بکنے والی قوم ہیں، یا بزدل قوم ہیں بلکہ آپ یوں کہہ لیں کہ اپنے حق کے لیے لڑنے کی ہماری تربیت ہی نہیں ہے، ہمارے خون میں یہ چیز شامل ہی نہیں ہے اور نہ ہی ہماری ایسی ”نیچر“ ہے۔ اگر انگریز یہاں سے خود نہ جاتا تو کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے اُسے نکالنے کے لیے کوئی بڑی جنگ لڑی ہو؟ وہ تو بھلا ہو دوسری جنگ عظیم کا کہ جس کے بعد وہ خود کمزور ہو کر یہاں سے چلا گیا ۔ لہٰذاہماری اسی کمزوری کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھانپ لیا ہوا ہے، اسی لیے وہ ”پاور“ کے ساتھ نہیں لڑتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے ساتھ عوام نہیں کھڑے ہوںگے۔ نہیں یقین تو آپ نواز شریف کی ”ووٹ کو عزت دو“ والی لڑائی اور زرداری صاحب کی ”آپ تین سال کے لیے آتے ہیں جبکہ ہم نے یہاں صدا رہنا ہوتا “ اور” اینٹ سے اینٹ بجانے “والی لڑائیاں آپ کو ضرور یاد ہوں گی۔ تو کیا اُس میں عوام اُن کے ساتھ نکلی؟ اس لیے اب یہ لوگ ایسی لڑائیاں نہیں لڑتے، بلکہ پاور کے آگے جھک جاتے ہیں اور اپنے مفادات کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور نئے مفادات حاصل بھی کرتے ہیں۔
لہٰذاخان جی! آپ کن چکروں میں پڑے ہیں؟ آپ کن پر اکتفا کرکے بیٹھے ہیں کہ آپ کے لیے سڑکوں پر آئیںگے؟ آپLewisسٹائل زندگی گزار رہے تھے، موج کر رہے تھے، اچھی بھلی شاہانہ زندگی بسر کر رہے تھے، آپ کو ناجانے کس نے مشورہ دیا کہ اس قوم کو راہ راست پر لایا جائے؟ حالانکہ آپ تو پھر بھی انسان ہیں اگر ناعوذ وباللہ یہاں پیغمبر بھی آجاتے تو ان کو سدھارنا شاید مشکل ہوتا۔ ہم اُن کو بھی شاید دھوکہ دے جاتے۔ اور پھر آپ چونکہ کاروباری شخصیت نہیںہیں اور نہ ہی آپ کو فیکٹریوں، کارخانوں، پاور پلانٹس اور بیرون ملک لانچیں بھر بھر کر رقوم منتقل کرنے کا شوق نہیں ہے، اور آپ کے لےے یہ چیزیں کوئی نئی نہیں تھیں، آپ نے یہ سب کچھ سیاست میں آنے سے پہلے ہی دیکھا ہوا تھا، شہرت بھی کمائی ہوئی تھی، گلیمر بھی تھا، آپ کو چارٹرڈجہازوں میں پھرنے کا شوق بھی نہیں تھامطلب! زندگی کی تمام رعنائیوں میں رہتے تھے۔ لہٰذاآپ نے سوچا کہ شایدباقی پاکستانی بھی آپ جیسے ہوں گے، اس لیے آپ نے کہا کہ ان کو سدھارا جائے،،، لیکن افسوس آپ اس میں ناکام رہے۔ آپ کا پاور کے ساتھ مقابلہ کرنا ہی آپ کو لے ڈوبا ہے،آپ جیل میں چلے گئے ،وہاں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں، طرح طرح کے فضول مقدمات میں آپ کو اُلجھا دیا گیا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ خاکم بدہن آپ جان کی بازی بھی ہار جائیں! اس لیے آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ خاموشی سے ڈیل کریں، جان بچائیں اور نکل جائیں! یہاں رہ کر ہماری ”تاریخ“ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ہماری نیچر کو تبدیل کرنے کی بھی کوشش نہ کریں ، یہ نہیں بدل سکتی۔
ہاں! اگر آپ 70ءکی دہائی سے پہلے اس ملک میں آتے تو شاید اُس وقت آپ کوئی فائدہ حاصل کر لیتے، یا اس قوم کو سدھانے کے لیے آپ مہاتیر محمد یا طیب اردگان ثابت ہو سکتے تھے ، کیوں کہ اُس وقت لوگوں کا ایک معیار تھا، کرپشن کا کہیں کہیں شاذ و نادر ہی سنا کرتے تھے۔لوگوں میں غیرت تھی، لیکن 1977ءکے بعد تو ضیاءالحق کی غلط پالیسیوں اور کاروباری شخصیات کو سیاست میں ”ان“ کرنے جیسے اقدامات نے ملک کا ایسا بیڑہ غرق کیا کہ ہم اپنی مراعات، کرپشن وغیرہ کو چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں،ضیا دور میں کرپشن کی لت کا اصل آغاز ہوا، اور پوری قوم اس میں غرق ہوگئی۔ چلیں آپ خود تاریخ کا مطالعہ کر لیں اور بتائیں کہ کیا ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، شیخ رفیق، غوث بخش، ممتاز بھٹو، نوابزادہ نصراللہ، محمد خان جونیجو ، مفتی محمود، مولانا مودودی،پروفیسر غفور، ملک قاسم وغیرہ پر کوئی کرپشن کے چارجز تھے؟ حتیٰ کہ وزیر اعظم بھٹو پر بھی کوئی کرپشن کا الزام ثابت نہ ہوا، تبھی اُن پر قتل کا جھوٹا مقدمہ ڈال کر اُنہیں پھانسی کے تختے پر لٹکایا گیا۔ لیکن اس کے بعد آنے والے پارٹ ٹائم سیاستدانوں نے تو کرپشن کی انتہا کردی۔ جس کی بدولت اس وقت نہ تو کوئی ٹیکس دینے کو تیار ہے، نہ کوئی مراعات واپس کرنے کو تیار ہے۔ اور نہ ہی کوئی عوامی سطح تک بھی کرپشن چھوڑنے کو تیار ہے! ، بلکہ کرپشن تو اس وقت ہم سب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، ہم اپنے ارد گرد دیکھ لیں، ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے تاجر حضرات تک ملاوٹ، خراب مال اور کم ناپ تول کے ماہرین کی ہم نے فوج تیار کر رکھی ہے، حتیٰ کہ ہم اپنے آفسز، کارخانوں، ورک پلیسز پر دیکھ لیں ہڈ حرامی، نمک حرامی اور ہیرا پھیری کا عنصر عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ بلکہ یہاں تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ 1977ءسے پہلے ہمارے جرنیلوں کے پاس بھی اتنے اختیارات نہیں ہوا کرتے تھے، اور نہ ہی کسی کی اتنی مراعات تھیں۔ بلکہ بعد میں سب کو صرف کرپشن میں ساتھ ملانے کے لیے سب کو حصے دار بھی بنایا گیا اور مراعات بھی کئی گنا بڑھا دی گئیں۔
لہٰذاخان صاحب !بقول وزیر داخلہ کے، کہ بی ایل اے والے دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں،،،درحقیقت وہ ایس ایچ او کی مار نہیں بلکہ ہم سب ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔درحقیقت وہ ایس ایچ او کی مار نہیں بلکہ ہم سب ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ بلکہ آپ کو یہ بھی علم ہے کہ ہم دنیا بھر میں کرپشن میں اولین حیثیت رکھتے ہیں اور ہماری سچ بولنے والوں میں رینکنگ ڈیڑھ سو میں سے 140ویں نمبر پر ہے، تو کیا کبھی کرپٹ قوم بھی اپنے حقوق کے لیے باہر نکلتی ہے؟ لہٰذاآپ اُمید چھوڑ دیں، آپ کی فائنل کال کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن ہونا کچھ نہیں ہے، اگر کچھ ہونا ہوا تو امریکا کی ایک کال پر ہو سکتا ہے، ورنہ نہ تو 5لاکھ بندے اکٹھے ہونے ہیں اور نہ ہی عوامی مارچ نکلنا ہے، اگر اللہ کرے ایسا ہوجائے اور ہو بھی سکتا ہے، اگر ممتاز قادری کے جنازے میں پنڈی میں اتنے لوگ آسکتے ہیں تو احتجاج میں بھی آسکتے ہیں۔لیکن اس کے چانسز 1فیصد بھی نہیں ہیں۔ اور پھر بھی اگر آپ کا دل چاہتا ہے کہ آپ اقتدار میں آجائیں تو پھر بھی فی الوقت ڈیل کرکے باہر تو نکلیں، باہر نکلیں گے تو مزید ڈیل کرکے اقتدار میں بھی آجائیں گے!
اور آخری بات کہ یہ احتجاج اس لیے بھی شاید کامیاب نہ ہوسکے کہ آپ کی سیکنڈ قیادت تو معذرت کے ساتھ ساری بکی ہوئی ہے، وہ روزانہ وقت گزاری کے حربے استعمال کر رہی ہے، اُن کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں ہے، اللہ کرے کہ ہمارا کالم آپ تک پہنچ جائے، ورنہ تو آپ تک وہی بات پہنچائی جاتی ہے جو ”پاور ہاﺅس“ والے چاہتے ہیں! عوام کی بات تو آپ تک پہنچتی نہیں ہے۔ اگر پہنچ جائے تو خدارا! اس پر ضرور سوچیں!