بس کر دو یار بس کر دو

حضرت علی ؓنے فرمایا ’’کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نظام نہیں چل سکتا‘‘ ،ہمارے حکمران سمجھتے ہیں’’صرف ظلم کا نظام چل سکتا ہے جس کی بدولت وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے‘‘ ،ایسے نہیں ہوتا حضور ایسے نہیں ہوتا ،جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو ظالم اتنی اْونچائی سے گرتا ہے اْس کی ایک ہڈی بھی دفنانے کے لئے نہیں ملتی ،جب اللہ کی پکڑ آتی ہے بڑے بڑے ڈاکٹرز سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مْکے لہرانے والے اس ظالم کو بیماری کونسی ہے ؟ جب اللہ کی پکڑ آتی ہے اس کی ایک شکل یہ بھی ہے ظالم ،نفرت کا اس قدر شکارہو جاتا ہے لوگ اْس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتے کہ اْن کی تھوک ضائع ہو جائے گی ،جب اللہ کی پکڑ آتی ہے اْس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے ظالم اپنے ہی گھر کے افراد میں شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے ،اللہ کی رسی دراز ہے مگر یہ رسی جب رسا بن کر ظالموں کے گلے میں پڑتا ہے موٹی موٹی اکڑی ہوئی کئی بڑی بڑی گردنیں جھکتے اور ڈھلکتے ہوئے ہم نے دیکھی ہیں ،اللہ کی پکڑ کی ایک نشانی یہ بھی ہے ظالم اس احساس سے ہی محرو م ہو جاتا ہے جو ظلم لوگوں پر وہ ڈھا رہا ہے اْس کا نشانہ وہ خود بھی بن سکتا ہے ،مگر فی الحال تو یہ خود’’خدا‘‘ بنے ہوئے ہیں اور ان کا’’ایمان‘‘ یہ ہے روز حشر ان کی مرضی سے مقررہوگا اور جو عدالت وہاں لگے گی اْس کا جج بھی ان کی مرضی کاہوگا ،میں اکثر یہ سوچتاہوں اللہ کو پتہ تھا دنیا میں لوگ ایک دوسرے کو انصاف نہیں دے سکیں گے اسی لئے اللہ نے اپنا ایک روز حساب مقرر کیا ،فرمایا گیا ’’انسان کی سب خرابیوں گناہوں کا حساب روز محشرہوگا مگر ظلم کا حساب دْنیا و آخرت دونوں میںہوگا ،صرف اپنی ناجائز دولتوں کا حساب کتاب رکھنے والو ،اور اپنی ناجائز طاقت کا اندھا دْھند استعمال کرنے والو تم نہیں رہو گے ،تمہاری لاشوں کو کتے کوے اور گدیں نوچیں گی ،تم لاعلاج بیماریوں میں مبتلاہو جاؤ گے ،تمہارے مقدر میں صرف بددعائیں ہیں ،میں تمہیں دو تین واقعات سنانا چاہتاہوں ،اثر تو تم پر کوئی ہونا نہیں مگر میں سنانا چاہتاہوں ،ناروے اوسلو کی ایک مئیر اپنی سائیکل پر اپنے دفتر جا رہی تھی ،راستے میں بلی کا بچہ اْس کی سائیکل سے ٹکرانے کے بعد بھاگا تو ایک گاڑی کے نیچے آ کر کچلا گیا ،اْس خاتون مئیر پر اس واقعے کا اتنا اثرہوا اس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ،اْس نے اپنے استعفے میں لکھا ’’میری وجہ سے ایک جان چلی گئی ،میں بہت پریشان ہوں ،میں اس صدمے سے ذہنی طور پر اس قابل نہیں رہی اپنے فرائض پوری توجہ سے ادا کر سکوں لہٰذا میں مستعفی ہوتی ہوں‘‘ ،دوسرا واقعہ سْن لیں ،کینیڈا کیلگری میں میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا ’’کل تمہارے اعزاز میں جو محفل ہے میں اْس میں نہیں آسکوں گا کیونکہ کل میں نے اپنے نئے گھر میں شفٹنگ کرنی ہے‘‘ ،مگر اگلے روز وہ اْس محفل میں آگیا ،میں نے اْس سے پوچھا ’’ تم نے تو کہا تھا گھر کی شفٹنگ کی وجہ سے تم آج نہیں آؤ گے ؟ وہ بولا’’ سٹی کونسل کی طرف سے شفٹنگ کی اجازت نہیں ملی‘‘ ،سٹی کونسل وہاں شہر کے نظام کو چلانے والی سرکار کو کہتے ہیں ،میں نے اجازت (این او سی) نہ ملنے کی وجہ پوچھی ،اْس نے بتایا ’’جب یہاں کوئی نئے گھر میں شفٹ ہوتا ہے سٹی کونسل پہلے آ کر دیکھتی ہے اس گھر کی دیواریں چھتیں سیوریج سسٹم اور دیگر معاملات ٹھیک ہیں ،اْس کے بعد شفٹنگ کا این او سی جاری کیا جاتا ہے ،مجھے یہ این او سی اس لئے جاری نہیں کیا گیا کہ کل سٹی کونسل کے نمائندے نے جب گھر کا وزٹ کیا اْس نے دیکھا ایک کمرے میں چڑیا نے گھونسلہ بنایاہوا ہے جس میں اْس کے بچے ہیں ،اْس نمائندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ’’جب تک یہ بچے تھوڑے بڑے نہیںہو جاتے ،جب تک یہ گھونسلہ ہم کسی اور محفوظ مقام پر شفٹ نہیں کر دیتے آپ شفٹ نہیںہو سکتے‘‘ ،اب میرے مْلک کے ’’قصائی صاحبان‘‘ ایک تیسرا واقعہ بھی سْن لیں ،یہ واقعہ مجھے ایک انتہائی باکردار ایماندار اور شاندار پولیس افسر جاوید نور مرحوم نے سنایا تھا ،اْن کے داماد ایک عظیم نفیس انتہائی اہل و ایماندار پولیس افسر فیصل شاہکار آج کل یو این او میں پولیس ایڈوائزر ہیں ،ایک بار جاوید نور صاحب کو کسی کورس کے لئے آسٹریلیا جانا پڑا ،اس کورس میں ایک جرمن خاتون پولیس افسر بھی آئی ہوئی تھی ،وہ خاتون ایک روز اپنے ٹریننگ سینٹر میں آنے کے لئے بس سے اْتری ایک اسٹرے بْلٹ ( آوارہ گولی ) اْس کے بازو سے چھو کر گزر گئی ،بازو سے ہلکا سا خون بہنے لگا ،فوری طور پر ایک ایمبولینس آئی اور اْسے پٹی کر کے چلی گئی ،اْس خاتون پولیس افسر نے عدالت میں آسٹریلیا کے وزیراعظم کے خلاف درخواست دے دی ،اپنی درخواست میں اْس نے لکھا ’’آسٹریلیا رہنے کے لئے محفوظ جگہ نہیں ہے‘‘ عدالت نے وزیراعظم کو طلب کیا ،وزیراعظم نے خاتون پولیس افسر سے معافی مانگی ،خاتون پولیس افسر نے اْنہیں معاف کر دیا ،اْس کے بعد وزیراعظم نے ایک اور استدعا اْس خاتون پولیس افسر سے یہ کی کہ آپ نے عدالت میں جو درخواست دی ہے اْس میں لکھا ہے ’’آسٹریلیا رہنے کے لئے ایک محفوظ جگہ نہیں ہے‘‘ ،یہ جملہ ساری زندگی مجھے شرمندہ کرتا رہے گا ،آپ اپنی درخواست سے یہ الفاظ حذف کر دیں‘‘۔۔ اے میرے مْلک کے قصائیو یہ ہوتے ہیں مْلک اور یہ ہوتے ہیں معاشرے ترقیاں اور کامیابیاں جن کے قدموں میں پڑی رہتی ہیں ،یہ ہوتے ہیں وہ بندے جن سے اْن کا خدا خود پوچھتا ہے’’بتا تیری رضا کیا ہے ؟‘‘ ،اے حکمرانوں تم کس مٹی سے بنے ہوئے ہو ؟ کیا تمہیں مٹی میں مل جانے کا کوئی خوف نہیں ہے ؟ ہمارے کانوں میں تو اْس پتے کی چیخ بھی پڑتی ہے جو ٹہنی سے ٹوٹ کے گرتا ہے ،ہمیں تو کسی گلدستے کو اْس کے پھول مْرجھا جانے کے بعد باہر پھینکتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے ،تم کس مٹی سے بنے ہوئے ہو ؟ تمہارے سینوں میں دل کی جگہ پتھر پڑے ہیں کیا ؟ تمہارے کان بند پڑے ہیں جن میں مظلوموں کی آہیں نہیں پڑتیں ؟ ارے تم اندھے ہو گئے ہو کیا ؟ بس کر دو یار بس کر دو ،ہم سے مزید اب برداشت نہیں ہوتا ،ہمیں نفرت کے اْس آخری مقام پر مت لے کر جاؤ جہاں ہم نہیں جانا چاہتے۔

اپنا تبصرہ لکھیں