بلاول، سنجیدہ تھے، بڑا رہنما نظر آنے لگا!

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش کے میدان میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیربھٹو کی قبروں کے باہر اپنی تقریر میں بہت بڑی اور بامعنی باتیں کہہ دی ہیں، مجھے ان کی پوری تقریر سے غرض نہیں، لیکن انہوں نے پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے بارے میں جو فقرہ کہا وہ ایک نعرہ کے ساتھ ساتھ بڑی حقیقت کا بھی مظہر ہے، بلاول نے جب کہا ”عمران اک بہانہ ہے، ہمارا ایٹمی اور میزائل پروگرام نشانہ ہے“ بے نظیر شہید کے اکلوتے صاحبزادے اور جانشین نے بہت بڑی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے، نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد سفیر گرینل کی طرف سے کہی گئی باتوں ہی کے حوالے سے یہ بات کی، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے تو پہلے ہی یہ کہا گیا کہ پاکستان دورمار بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تیار کررہا ہے جو امریکی اہداف کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اس حوالے سے امریکہ نے پانچ کمپنیوں پر پابندیاں بھی لگائی ہیں، جواب میں دفترخارجہ کی ترجمان نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا میزائل پروگرام دفاعی ہے اور یہ بھارت کی جارحانہ تیاریوں کے جواب میں ہے۔ ترجمان نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ امریکہ بھارت سے کیوں نہیں پوچھتا، بلاول نے بات تو پتے کی کہی تاہم اس میں سیاسی رنگ تھا اور پھر جب انہوں نے کہا کہ ہم اس پروگرام پر کوئی سودا نہیں کرنے دیں گے تو ان کی یہ بات بامعنی ہو جاتی ہے، جب مسلم لیگ(ن) کے زعماء کی طرف سے اس بارے میں کہا گیا کہ خان صاحب کی حمایت اسرائیل کی طرف سے ہو رہی ہے اسی حوالے سے خواجہ سعد رفیق نے بھی ٹویٹ کیا اور یہی موقف بیان کیا تاہم انہوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ امریکی دباؤ کا مقصد پاک چین تعلقات کو دیکھتے ہوئے چین کو روکنے کے لئے ہے، بلاول کا تو اس پروگرام سے جذباتی رشتہ بھی بنتا ہے کہ ایٹمی پروگرام اور مسلم اتحاد ان کے نانا کی کاوش تھی جس کے بدلے ان کو نشان عبرت کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر تختہ دار پر بھی جھول گئے، اس کے بعد محترمہ نے شمالی کوریا کے تعاون سے میزائل پروگرام شروع کیا تھا جو آج اپنی ترقی یافتہ شکل میں ہے کہ امریکہ نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی تیاری کا الزام لگایا ہے۔

گڑھی خدا بخش میں یہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے ہونے والا اجتماع تھا جن کو دشمنوں نے ایسے ہی ”جرائم“ کی سزا کے طور پر سربازار شہید کیا تھا، 27دسمبر 2007ء کے بعد سے پیپلزپارٹی کو اب سال مین دو اجتماع کرنا ہوتے ہیں۔ محترمہ کی شہادت کا دن تو 27دسمبر ہے تاہم اس سے پہلے 4اپریل کو یہاں بڑا اجتماع ہوتا ہے جو ایٹمی پروگرام کی شروعات کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا دن ہے، میں نے معمول سے ہٹ کر بلاول کی یہ تقریر لائیو سنی اور یقین کے مطابق بامعنی تھی اگرچہ انہوں نے اپنے خطاب میں شکوے اور مطالبے بھی کئے لیکن انداز خالص سیاسی اور مدبرانہ تھا، بلاول کا یہ کہنا بھی حالات کے مطابق ہے کہ دباؤ کا مقابلہ سب کو مل کر کرنا ہوگا اور فیصلے باہمی مشاورت سے ہونا چاہئیں، اس بارے میں تو ہمارا موقف تسلسل سے ہے اور تواتر سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اختلاف کا جمہوری حق ہے لیکن ان کو اختلاف کو دشمنی کی حد تک نہیں لے جانا چاہیے، لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز والا مسئلہ تھا لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اس بار تو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے جواب میں تحریک انصاف کا موقف اور جواب بھی اشتعال انگیز نہیں ہے، بلکہ انصاف قیادت کی طرف سے اب بھی مذاکرات جاری رکھنے ہی کی بات کی گئی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف تحریک انصاف بلکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہی رویہ اپنانا چاہیے اور تمام فیصلے ملکی قومی اتفاق رائے سے کرنا چاہئیں۔ ٹرمپ کے نامزد مشیر کی عمران دہائی کی بات اپنی جگہ، ان کے بیان کا یہ حصہ زیادہ قابل غور ہے کہ نامزد وزیرخارجہ نے میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی پابندیوں اور الزام کو نوٹ کر لیا ہے اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے بھی تو ایسے ہی اعلانات اور بیانات کا نوٹس لیا ہے۔ میں توبلاول سے ہی درخواست کروں گا کہ وہ حالات پر اتنی غائر نظر رکھتے ہوئے اگر اتفاق رائے کی بات کرتے ہیں تو ان کو خود بھی پیش قدمی کرنا چاہیے اور مفاہمت کا سارا بوجھ اپنے والد محترم صدر آصف زرداری پر نہیں ان پر بھی ہے جو مسلم لیگ (ن) سے تحفظات بھی رکھتے ہیں، کیونکہ پہلے اپنے گھرکو سیدھا رکھنا چاہیے، اگرچہ صدر زرداری نے پھر مفاہمت کی حامی بھری ہے، اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

میں نے ہمیشہ میانہ روی کی بات کی ہے اور کسی بھی جماعت پر بے جا تنقید نہیں کی۔ اسی لئے کپتان صاحب کو بھی نہیں چھوا اگرچہ مجھے ان کی سیاسی حکمت عملی سے بھی بہت اختلاف ہے تاہم اب جو حالات ہیں ان کے مطابق مجھے یہ کہنا ہے کہ تحریک انصاف خواجہ آصف کے ان بیانات کا نوٹس کیوں نہیں لیتی جو وہ اسرائیلی حمایت کے حوالے سے الزام کی صورت میں لگا رہے ہیں، غور کیا تو واقعی اندازہ ہوا کہ تحریک انصاف والوں کو اپنے بانی کے سوا اور سب ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اور ان کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے اسرائیل و امریکہ کی مذمت بھی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف کے اعتدال پسند حضرات کو تو اس طرف توجہ دینا چاہیے، مجھے یقین ہے کہ حالات کا جبران سب کو ایک میز پر لے ہی آئے گا کہ مسائل کا حل تو بات چیت ہی ہے۔

ہم نے مسلسل مفاہمت اور بہتر حالات کے لئے قومی اتفاق رائے کی حمائت کی، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے سبھی سیاسی رہنما صرف ایک عہد کرلیں کہ بولنے سے پہلے تولنا ہے تو بہت کچھ ٹھیک ہو جائے گا بلکہ میں تو یہ تجویز کرتا ہوں کہ مذاکرات کے مکمل ہونے تک سب چپ کا روزہ رکھ لیں، اگر بات کرنے کو جی چاہے تو ملکی ترقی اور بہبود کے حوالے سے خامیوں کی نشاندہی کرکے بہتر تجاویز دیں، اب میں بات کو اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے اس یقین کا اظہارکرتا ہوں کہ 2جنوری سے مذاکرات مثبت رخ اختیار کریں گے اور ملک و قوم کے لئے بہتر فیصلے ہوں گے۔ بات تو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل شریف چودھری کی میڈیا بریفنگ کے بارے میں بھی کرنا چاہیے، میں ان کی اس بات کی تائیداد کرتا ہوں کہ سیاست دانوں کو سیاست دانوں سے بات کرکے مسائل حل کرنا چاہئیں، دعا گو ہوں کہ قوم کو عذاب سے نکال لیا جائے گا۔ڈی جی صاحب کی اس بات پر بھی غور کریں کہ آپ نے زور لگا کر کہا کہ نو مئی آپ کے خلاف سازش ہے،وہ کہتے ہیں کہ سزاؤں پر خوش ہوں کہ آپ کے مطابق ان کے اپنے بندوں کو سزائیں ملیں،آپ تو اب ان کو اپنے کارکن مان کر چیلنج کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں