دوستوں کے فون مل رہے ہیں کہتے ہیں سیاست پر کالم لکھنا ”بھول گئے یا ڈر لگتا ہے“۔ انہیں بتایا کہ ڈر نہیں لگتا لیکن اس ملک میں جہاں پی ڈی ایم ون۔ ٹو اور اب پی ڈی ایم تھری کی حکومت ہے۔ وہاں کون سی سیاست، کون سی جمہوریت اور کہاں کی صحافت، لیکن کیا کروں جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی سے زیادتی ہو رہی ہے، ظلم ہو رہا ہے اور وہ آواز نہیں اُٹھا پا رہا، بول نہیں رہا تو کوشش کرتا ہوں کہ چلو میں ہی کچھ لکھ دوں۔ کوئی جھوٹ سمجھے یا سچ مجھے کوئی غرض نہیں۔ صحافت میں آنے کا مقصد پیسہ کمانا نہیں تھا اور نہ کبھی اس دوڑ میں شامل ہو سکا۔ ہمیشہ کوشش کی ایسی خبریں دی جائیں جن سے معاشرے میں بہتری آئے۔ بہرحال اپنی تعریف کرنا مقصد نہیں، مقصد یہ کہ اب جو زندگی تھوڑی بہت باقی رہ گئی ہے اور جب تک زندہ ہوں مجبور، مقہور، مظلوم عوام کے مسائل اجاگر کروں۔ چاہے وہ قومی ہوں، علاقائی یا کسی شہر کے مسائل ہوں۔آج جو تکلیف ہوئی ہے وہ بھی خاص ہے۔ کسی معصوم بچے کی لاش دیکھ کر دِل بیحد دکھتا ہے۔ آخر کون باپ اپنے چند سال کے بچے کو گود میں اُٹھا کے قبرستان لے جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں باپ کے کندھے پہ بیٹے کا جنازہ اُس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ یہاں تو چھوٹے چھوٹے پیارے معصوم بچے جو کبھی غلطی سے گھر سے باہر نکل جاتے ہیں یا کوئی ”چیز خریدنے“کے لئے ماں باپ سے چند روپے لے کے ضد کرکے گھر سے نکلتے ہیں اور محلے کی دکان پر پہنچنے کی بجائے کھلے گٹر میں گر کر سیوریج لائن میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ گندا پانی کہ جس کی چھینٹ پڑ جائے تو ہم نماز نہیں پڑھتے جب تک ناپاک کپڑے نہ بدل لیں یا کم از کم اس حصے کو دھو کر صاف نہ کر لیں، لیکن اسی گندے پانی کے اندر ڈوب کر ہمارے بچے مر رہے ہیں۔
ایک قومی ٹی وی کے مطابق دو تین نہیں ”19“بچے صرف 2024ء میں گٹر میں ڈوب کے مر گئے اور 2025ء کی ابتدا بھی ایک بچے کی موت سے ہوئی ہے۔محمود آباد کا چھ سالہ عباد جو اپنے گھر سے ماں باپ کے ساتھ ایک عقیقے کی تقریب میں شرکت کے لئے شاہ فیصل کالونی آیا تھا۔ اس تقریب میں دو بچے کھیلتے ہوئے شادی ہال سے باہر نکلے اور بغیر ڈھکنے والے گٹر کے اندر گر گئے۔شور مچا ایک بچے کو بچا لیا گیا، لیکن بدقسمت عباد کو تیز پانی بہا کر لے گیا اور پھر دو گھنٹے کے بعد اس کی لاش کورنگی پل کے نیچے نالے کے اندر ملی۔ ریسکیو کے عملے نے جن کے پاس نہ کوئی سیفٹی کٹ تھی، نہ کوئی آکسیجن ماسک اور سلنڈر گٹر اور نالے میں اُتر کے اس بچے کی تلاش کی تھی۔یہ ہے ہمارا سب سے بڑا شہر، سب سے بڑی بندر گاہ، میٹرو پولیٹن کراچی۔ صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا اپنا صوبہ اپنا شہر۔جہاں یہ بچے مر رہے ہیں،لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ جن سے پوچھا جانا چاہئے ان کے جواب سن کر شرم آتی ہے ۔ مئیر کراچی، جس ٹا ؤن میں یہ واقعہ ہوا وہاں کے ٹاؤن ناظم کا جواب سُن کے شرم آنی ہی چاہئے۔ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی کا سندھ اسمبلی کے فلور پر بیان سُن کر بھی شرم آنی چاہئے۔ ان ”لیڈروں کے بچے“ان کے ایکڑوں پر محیط گھروں سے شاید باہر نکلتے ہی نہیں ہیں اور نکلتے ہیں تو کسی بکتر بند گاڑی(چھ سے آٹھ کروڑ کی بلٹ پروف لیکسس)میں نکلتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں، لیکن ان کا کیا خیال ہے اگر ہمارے بچے مرتے رہے تو کیا یہ خود محفوظ رہ سکیں گے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے ”انقلاب فرانس“ایسے ہی حالات میں آیا کرتا ہے۔ ہمارے حکمران اس وقت سے ڈریں اور ”فرانس کی گلی گلی لگنے والی گلوٹین“ یاد کریں۔ سوچیں کہ جب گلوٹین لگتی ہے تو ”پھر کیا“ ہوتا ہے۔ میں تو حکمرانوں کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ کراچی جس کی آبادی سرکار کے مطابق دو کروڑ 10لاکھ کے قریب ہے۔ سات اضلاع ہیں،18ٹاؤن اور چھ کنٹونمنٹ ہیں۔299یونین کونسلیں ہیں۔اب اتنے بڑے شہر کے لئے اتنے سب ”انتظام کے باوجود“آخر اس شہر میں یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے۔ مرتضیٰ وہاب میرے نزدیک ایک ”اچھے آدمی“ہوں گے میں اُن سے ملا نہیں ہوں۔ان کی والدہ مرحومہ فوزیہ وہاب سے تو ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ وہ بہت نفیس خاتون تھیں، لیکن وہ نفاست مرتضی وہاب کی گفتگو میں نظر نہیں آتی۔ مرتضیٰ وہاب نے عباد کی موت پر جو گفتگو کی ہے وہ ناقابل ِ برداشت ہے۔
مرتضیٰ وہاب فرماتے ہیں ”ڈھکن چوری سے بچانا میری نہیں پولیس کی ذمہ داری ہے۔ عوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔بچوں کا خیال کریں۔ان گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت عوام کی ذمہ داری ہے۔ہر گٹر کے ڈھکن کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ ہر گلی میں جا کر رکھوالی کرنا میرا کام نہیں ہے۔ مئیر صاحب نے کہا کہ مجھے افسوس اِس بات پر ہے کہ عباد کی موت پر سیاست کی جا رہی ہے ڈھکن میں چوری نہیں کرتا اور نہ ہر گلی جا کر رکھوالی کر سکتا ہوں۔ یہ کراچی کا وہ میئر کہہ رہا ہے جسے میئر بنے دو سال ہو گئے ہیں اور جو میئر بننے سے پہلے دو سال کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بھی رہا ہے، لیکن مرتضیٰ وہاب کی ”کار گزاری“ زبردست ہے۔عباد کی موت کے فوراً بعد علاقے کے وہ سارے گٹر جن پر ڈھکن نہیں تھے وہاں ڈھکن رکھ دیئے گئے۔
وہ ٹاؤن جس میں یہ بچہ گٹر میں ڈوب کر مرا اس کے ٹاؤن ناظم گوہر خٹک کا فرمانا ہے کہ ڈھکن گٹر پر رکھوانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے یہ ان کا نہیں بلدیہ کا کام ہے۔ چلیں بلدیہ کراچی اور ٹاؤن ذمے دار نہیں، مگر کراچی کی 299 یونین کونسلیں کیا کر رہی ہیں، یہ کس مرض کی دوا ہیں، یہ یونین کونسلیں کس لئے بنائی گئی ہیں۔ تین سو یونین کونسل ناظم اور ہزاروں کونسلر کس مرض کی دوا ہیں۔ گزشتہ سال مئی میں ایک چھ سالہ معصوم بچہ ”ابیہان“بغیر ڈھکن والے گٹر میں گرا آج نو ماہ ہو چکے۔ اس معصوم کی لاش نہیں ملی اس کے ماں باپ کہتے ہیں اُنہیں صبر نہیں آتا۔ بچے کی لاش مل جاتی تو یہ یقین ہو جاتا کہ بچہ مر گیا۔ ان حالات میں جب کوئی یہ کہے کہ سیاست پر لکھو تو ایسی ”آدم خور سیاست“ پر کیا لکھوں، جس سیاست کے نمائندے پیپلز پارٹی کے ”بڑے لیڈران“، مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب، وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور ٹاؤن ناظم گوہر خٹک اور باقی سب سیاستدان ہیں،جو اپنی صفائی بھی صحیح طرح پیش نہیں کر سکتے، جنہیں صفائی پیش کرنا بھی نہیں آتی۔ کم از کم کراچی والوں سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگتے .