مجھے یہ وہم تھا کہ میری راے بڑی مدلل، متوازن، معتدل اور معقول ہوتی ہے مگر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگتی سے بلوچستان پر گرما گرم بحث ہوئی تو انہوں نے میری ہر دلیل کو رد کیا، ہر تاریخی واقعہ کو مسترد کردیا اور حتیٰ کہ میرے تجزیے سے بھی شدید اختلاف کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں میری ہر بات سے اختلاف تھا۔ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے والے دن وزیر اعلیٰ بگتی اور ان کے وزراء سے گفتگو کا موضوع بلوچستان میں نہ تھمنے والی دہشت گردی تھا۔ گفتگو کا آغاز میرے اس سوال سے ہوا کہ 75سال سے اوپر تلے فوجی آپریشن ہو رہے ہیں مگر دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے ایسا کیوں؟ میرا یہ سوال کرنا تھا کہ سرفراز بگتی کے صوبائی وزراء علی مدد جتک اور میر شعیب نوشیروانی فوراً بولے آپریشن کہاں ہورہا ہے، سرفراز بگتی بولے ہم کہتے ہیں کہ آپریشن کریں مگر آپریشن کیا ہی نہیں جا رہا۔ میں نے کہا چن چن کر پنجابی اور فوجی مارے جارہے ہیں روزانہ خبریں آرہی ہیں آپریشن ہو رہا ہے تو یہ اس کا ردعمل ہی تو ہے۔ سرفراز بگتی نے کہا کہ آپریشن نہیں ہو رہا اسی لئے تو یہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ موثر آپریشن ہو تو اس کا تدارک ہوجائے۔ میں نے سوال کیا تو ہماری فورسز یہاں کیا کررہی ہیں۔؟ سرفراز بگتی نے جواب دیا کہ آپ پنجابی اور مقتدرہ دونوں بلوچستان کے مسئلے پر کنفیوزڈ ہیں۔ میں نے ترت جواب دیا کہ دہشت گرد ہم پنجابیوں کو استحصالی اور ظالم کہتے ہیں اور پھر اس غلط الزام پر پنجابیوں کو چن چن کر مارتے ہیں اور آپ لوگ جو دہشت گردوں کے خلاف اور مقتدرہ کے ساتھی ہیں آپ بھی ہمیں کنفیوزڈ کہہ رہے ہیں، گویا بلوچستان کے دونوں فریق ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ مجھے وزیراعظم نے بلاکر کہا کہ مذاکرات کا راستہ کھولیں تو انہیں جواب دیا کہ کس سے مذاکرات کریں، ڈاکٹر مالک سے؟ وہ تو کل بھی میرے پاس آئے ہوئے تھے، دہشت گردوں سے مذاکرات کریں تو ان کا پہلا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو آزاد کرو، تو کیا ان کا مطالبہ مان لیں؟میں نے کہا کہ ہمارے ہاں یہ احساس جرم پایا جاتا ہے کہ ہم 75سال سے آپریشن کر رہے ہیں، ہم نے زور زبردستی سے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا جس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا۔ سرفراز بگتی نے کہا کہ آپ لوگوں نے تاریخ بھی وہی پڑھی ہے جو قوم پرستوں نے لکھی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان تو صوبہ ہی 1970ء کے بعد بنا ہےبلوچستان کے پہلے کئی حصے تھے، ریاست قلات تھی اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں، دوسری طرف برطانوی حکومت کے زیرنگیں برٹش ایریا تھا۔ ریاست قلات کے فرمانروا میر احمد یار خان نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’’میں نے ساتھیوں سے صلاح مشورے کے بعد پاکستان سے انضمام کا فیصلہ کیا، میں ساتھیوں کو بھی ساتھ کراچی لے جانا چاہتا تھا لیکن ذرائع رسل و رسائل میں کمی کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا جس پر بعض ساتھیوں کو اختلاف ہوا۔‘‘ میں نے فوراً تاریخ کا حوالہ دیا کہ نواب کے بھائی عبدالکریم بلوچ نے تو اسی وقت علم بغاوت بلند کردیا تھا اور اس کے خلاف پہلا فوجی آپریشن ہوا تھا۔ سرفراز بگتی نے کہا کہ عبدالکریم بلوچ کی نام نہاد بغاوت کے خلاف پولیس آپریشن ہوا تھا ،یہ بہت چھوٹا سا واقعہ تھا جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ عبدالکریم بلوچ کی اہلیہ افغان تھی اس لئے عبدالکریم بلوچ اپنی اہلیہ کے ملک جا کر آباد ہوگیا اس کے جانے کے بعد نہ کوئی آزادی کی تحریک تھی اور نہ کوئی اُس کا کوئی سپاہی۔ میں کہاں ان باتوں کو ماننے والا تھا جو دہائیوں سے میری سوچ کا حصہ تھیں، میں نے پٹاری کھول کر کہا سردار نوروز خان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا اور صلح کے بہانے پہاڑوں سے اتار کر اسے مار دیا گیا، اس واقعے نے بلوچستان کی تلخیوں میں اضافہ کیا۔ سرفراز بگتی نے پھر میری تاریخ کو جھٹلایا اور کہا کہ نوروز خان کو پہاڑوں سے نیچے فوج نہیں لائی تھی بلکہ وہاں نوروز خان کا داماد اور سردار عطاء اللہ مینگل گئے تھے، نوروز خان نے اپنے داماد کو صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں میں تمہارے کہنے پر پہاڑوں سے نیچے نہیں اتروں گا تم مجھے دھوکہ دو گے البتہ عطاء اللہ مینگل پر مجھے یقین ہے چنانچہ نوروز خان مینگل کی یقین دہانی پر نیچے اترا، پھرسرفراز بگتی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے عطاء اللہ مینگل والا حصہ غائب کیوں ہے؟
میں کہاں رکنے والا تھا میں نے وزیر اعلیٰ پر سیدھا الزام عائد کردیا آپ تو فوج کے ایجنٹ مشہور ہیں اسی وجہ سے آپ کو بڑے بڑے عہدے ملے ہیں۔ سرفراز بگتی نے ناراض ہوئے بغیر کہا کہ ہم فوج سے دن میں ملتے ہیں اور نام نہاد قوم پرست رات کے اندھیرے میں انہیں ملتے ہیں، اگر یہ اتنے ہی فوج کے خلاف ہوتے تو آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ صلح کرکے افغانستان سے واپس پاکستان کیوں آتے؟جنرل ضیاء الحق سے کوئٹہ میں زمین لیکر وہاں مقیم کیوں ہوتے؟ یہ سردار بڑی دیر تک فوج کےساتھ کھیل کھیلتے رہے ایک سردار پہاڑوں پر جا کر بیٹھ جاتا اور دوسرا کزن حکومت کے ساتھ مل جاتا کچھ عرصے بعد حکومتی کزن انتظام کرکے اپنے سردار کو پہاڑوں سے نیچے لے آتا، ڈیل میں ملنے والے پیسے دونوں بانٹ لیتے اور یوں ان کے چار پانچ سال اچھے گزر جاتے، پیسے ختم ہوتے تو پھر وہی چکر دہرا کر مزید رقم اینٹھ لی جاتی۔سرفراز بگتی کے دلائل جتنے بھی وزنی تھے میرا دل و دماغ انہیں قبول نہیں کر رہا تھا۔ مجھے بلوچستان میں مسلسل بہتے خون کے جواز کی نہیں اس کے روکنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ کوئی دلیل کوئی مکالمہ مجھے لاپتہ افراد کے غائب ہونے کا جواز فراہم نہیں کرسکتا، سینکڑوں ہزاروں لاپتہ افراد خود اتنا بڑا المیہ ہیں کہ اس کی وجوہات میں جائے بغیر اس عمل کی مذمت کم از کم انسانی ردعمل ہے۔ خود کش دھماکے، کسی قوم یا قبیلے کا آخری مایوس کن اقدام ہوتا ہے خود کش دھماکے تب ہوتے ہیں جب پانی سر سے گزرجائے۔ مجھے دلائل کے انبار کے باوجود نوروز خان کے قتل ، عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کی کراچی میں گم شدگی اور موت اور پھر خیر بخش مری کے بیٹے کی افغان سرحد پر موت ہضم نہیں ہوتی۔ ناحق خون ردعمل اور انتقام پیدا کرتا ہے، آخری کھیل بوڑھے نواب اکبر بگتی کی موت تھی بس اس کے بعد سے حالات آئوٹ آف کنٹرول ہیں۔
سرفراز بگتی سے تمام تر اختلاف کے باوجود مجھے ان کے تجزیے سے اتفاق کرنا پڑا کہ ریاست اور پنجاب، بلوچستان کے فوجی آپریشن کے بارے میں کنفیوزڈ ہیں، دایاں اور بایاں بازو دونوں بلوچوں کے ساتھ استحصال کو ناجائز تصور کرتے ہیں، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن کے بعد کسی نئے فوجی آپریشن کی حمایت میں پس و پیش کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کو سب سے ترجیحی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ریاست اور اہل سیاست سرجوڑ کر بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ بہتا خون اور دونوں طرف کے مظلوموں کی آہیں پنجاب اور ریاست کو متنبہ کر رہی ہیں کہ دیر میں اندھیر ہوگا۔