ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایشیا کے گھنے جنگلوں میں دنیا کی سب سے منفرد اور عجیب جنگ ہوئی ویسے تو دنیا بھر کے جنگلوں میں سب سے طاقتورہی بادشاہ ہوتا ہے چونکہ شیر سب سے طاقتور جانور ہے اس لئے جنگل کا بادشاہ ہمیشہ سے شیر ہی ہوا کرتا ہے مگر نہ سارے جنگل ایک جیسے ہوتے ہیں نہ ساری دنیا ایک جیسی ہے اور نہ سارے شیر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس جنگل پر افتاد یہ آپڑی کہ شیروں کو بھینسوں نے اپنا ہدف بنا لیا جو شیر بھی بادشاہ بنتا بھینسے اسکے خلاف متحد ہو جاتے اپنے سینگوں کو ہتھیار بنا کر بکرے، بکریوں اور بھیڑوں کو یا ڈرا لیتے یا ہمنوا بنا لیتے۔ بھینسے اپنے اتحاد اور نظم وضبط سے اتنے مضبوط ہو گئے کہ شیروں میں مکمل نااتفاقی پیدا ہوگئی وہ آپس میں ہی لڑنے لگے۔ ایک دوسرے سے نفرت میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ شیروں کے درمیان مل بیٹھنے، مشترکہ حکمت عملی یا مزاحمت کی کوئی رمق باقی نہ رہی۔ شیر اپنی کچھاروں تک محدود رہ گئے اور جنگل میں بھینسوں کا راج قائم ہوگیا کوئی شیر پھانسی چڑھا، کوئی الزامات کا شکار ہوا تو کوئی سزائیں بھگتتا رہا۔ بھینسوں کی طاقت اور اتحاد مثالی تھا۔ شیروں نے دھاڑنا بند کر دیا اور اب بھینسوں کے ہمنوا بن گئے کچھ مظلوم شیر تھے اور کچھ شیر اقتدار میں زیرنگین شراکت دار بن گئے لیکن اصل اقتدار بھینسوں کا ہی تھا کوئی شیر یا بکری ان کے سامنے دم نہیں مار سکتےتھے ۔
ایک دن بھینسوں نے ایک خفیہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ گو شیروں کے دانت نکل گئے ہیں مگر یہ کسی بھی دن پھر خطرہ بن سکتے ہیں وہاں ایک پاشو نے تجویز دی کہ کیوں نہ شیروں میں ایک بکرے کو شیر کا رنگ دیکر شامل کر دیا جائے سب دانشور بھینسوں کو یہ تجویز بڑی پسند آئی پھر اس بکرے کو شیروں جیسی تربیت دی گئی بکریوں اوربھیڑوں کو اس کے ساتھ ملایا گیا ،بچے کچھے شیروں کو اس بکرے کے ہاتھوں بدنام کیا گیا ،اندھے گیدڑ قاضی تھے وہ بھی بھینسوں کے ساتھ شیروں کے شکار میں آگے بڑھ بڑھ کر وار کرتے رہے، انہیں پہلے سے ہی علم تھا کہ بھینسے ہی جیتنے ہیں۔ خیر بھینسوں کا پلان کامیاب رہا شیر ایک ایک کرکے گرتے رہے کچھ زخمی ہوئے کچھ ڈر کر ساتھ مل گئے کچھ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے بالآخر شیروں کا لباس پہنے یہ بکرا جنگل میں اکیلا ہی رہ گیا۔ اس کی ’’میں میں‘‘ کا ہر طرف چرچا ہو گیا۔ لاڈلےبکرے کو بڑے چاؤ اور پیار سے تخت شاہی پر بٹھا دیا گیا لیکن اس کے پیچھے اصل طاقت تو بھینسوں کی ہی تھی۔ بکرا اور بھینسے ملکر چین کی بانسری بجانے لگے۔ شیر مٹ چکے تھے گیدڑ قاضی کے ساتھ مل چکے تھے اور بھیڑ بکریاں چرچے سے مسحور ہو کر بکرے کے نغمے گا رہی تھیں ایسے میں بھینسے کے گروہ میں تشویش پیدا ہونی شروع ہو گئی انہیں لگا کہ مکمل حمایت کے باوجود بکرے سے جنگل کا انتظام چل نہیں رہا ،چارہ اور سبزہ تیزی سے ختم ہو رہےہیں قریبی جنگلوں سے دوستی کی بجائے مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ خلیجی جنگلوں کے بادشاہوں کو بھی شکایات پیدا ہونے لگیں۔ اب بھینسوں کو شیروں کی ضرورت پڑ گئی شیر لاغر اور کمزور تھے مگر انکی نگاہیں چمک اٹھیں اور وہ بھینسوں کی رتھ پر سوار ہو گئے اور بکرے کو بادشاہی سے اتار پھینکا۔
اب بھینسے اور بکرے کی براہ راست جنگ شروع ہو گئی بکرے کو شیروں جیسی حکمت عملی تو آتی نہیں ،شیر اچھے وقت کا انتظار کیا کرتے تھے بھینسے پر حملہ اسوقت کرتے جب پہلے اسے اکیلا کر لیتے بکرا یہ حکمت عملی کبھی نہ جان سکا اسے اپنے طاقتور سینگوں پر ناز تھا ۔اس کا خیال تھا کہ بھیڑوں اور بکریوں کے جو غول اس کے ساتھ ہیں وہ بھینسے کو مشکل میں ڈال دیں گے بس اس نے بھیڑوں اور بکریوں کے ذریعے جنگل میں اکٹھ کرنے شروع کر دیئے جس طرح کہاوت ہے کہ بھینسے کے سامنے سرخ کپڑا لہرائیں تو وہ غصے میں پاگل ہو جاتاہے۔ بکرےنے بھی بھینسے کے سامنے اپنی ’’میں میں‘‘ سے سرخ کپڑا لہرانا شروع کر دیا ۔بکرے کا خیال تھا کہ بھینسا پاگل ہوگا تو غلطیاں کرے گا کمزور ہوگا مگر بھینسے کو خوئے حکمرانی نے بہت کچھ سکھا دیا ہے اسے علم ہے کہ سانپ بہرا ہوتا ہے اسے بین کی آواز سنائی نہیں دیتی وہ تو بین کی نقل و حرکت سے اور سپیرے کے فن سے ناچتا ہے۔ اسی طرح اسے یہ بھی علم ہو چکا کہ بھینسا تو کلر بلائنڈ ہے اسے سرخ یا کسی اور رنگ سے غرض نہیں اگر کالاکپڑا بھی لہرایا جائے تب بھی اسے اتنا ہی غصہ آئیگا۔اس کہانی کا آخری منظربڑا تشویش ناک ہے بکرے کو جب بار بار شکست ہوتی رہی بھیڑ بکریوں کے اکٹھ کام آئے نہ ’’میں میں‘‘ کام آئی نہ گیدڑ قاضی بولے نہ مغربی اور نہ خلیجی جنگلوں سے کوئی امداد ملی تو اس نے آخری کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ جنگل کے مرکز میں جب سے اکٹھ کو شکست ہوئی بھیڑیں، بکریاں اپنی رانی سمیت بھاگنے پر مجبور ہوئیں تو بکرا ایک نتیجے پر پہنچ گیا کہ اب بھینسے کو اتنا بھڑکانا ہے اتنا غصہ دلانا ہے کہ وہ جانوروں کی شہری حکومت سرے سے ہی ختم کر دے اور اپنا نظام نافذ کر دے تاکہ غیر ملکی جنگلوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ایشیا کے اس جنگل میں ظلم و ستم کا جابرانہ نظام ہے، یہاں جانوروں کی حکومت نہیں بلکہ ایک مخصوص طاقتور اور مسلح جتھے کی حکومت ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر بھینسے سے یہ غلطی واقعی ہو گئی تو اس جنگل کے حکمرانوں کے خلاف باقی سارے جنگل اکٹھے ہو جائیں گے اور پھر اس جنگل میں بیرونی مداخلت شروع ہو جائے گی ۔
یہ کہانی بہت پرانی ہے مجھے ایک بہت ہی پرانی اور شکستہ کتاب میں پڑھنے کو ملی ،کتاب کا آخری صفحہ پھٹا ہوا تھا اس لئے اس کہانی کا انجام پتہ نہ چل سکا۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ اس طرح کی لڑائیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
نوٹ : تمثیلاتی اور تلمیحاتی کہانیوں میں بکرے کا مطلب مزاحمت ہوتا ہے گدھے کا مطلب خوش قسمتی اور محنت ہوتی ہے ۔ گوگل میں ان جانوروں کے علامتی مطلب نکال لیں تو کنفیوژن دور ہو سکتا ہے یہ عاجز تو خود بکرا بھی ہے اور گدھا بھی۔ اور اسے بھینسے سے بہت ڈر بھی لگتا ہے…