انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اتوار کو بہار کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ’گھس بیٹھیوں‘ کے ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی۔گھس بیٹھیے‘ کا مطلب غیر ملکی درانداز ہے اور وزیر داخلہ اکثر مسلمانوں کا نام لیے بغیر اس نام سے انھیں نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کے رہنماؤں کی تقریروں میں جس شدت اور برجستگی کے ساتھ مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا ہے ماضی کے کسی انتخاب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اس بار کے الیکشن کے لیے ’اس بار 400 پار‘ کا نعرہ دیا تھا۔ یعنی 543 رکنی لوک سبھا میں 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا۔انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز بہت پراعتماد طریقے سے کیا۔ ان کی ابتدائی تقریروں میں رام مندر کی تعمیر کے وعدے کو پورا کرنا، کشمیر کی دفعہ 370 کو ہٹانا اور ان کی دس برس کی حکومت کی کارکردگی کا ذکر ہوتا تھا لیکن الیکشن کے سات میں سے ابتدائی دو مراحل کے فوراً بعد ان کا لب و لہجہ اچانک بدل گیا اور ان کی زیادہ تر توجہ مسلم مخالف مسائل پر مرکوز ہو گئی۔انھوں نے اپنی تقریروں میں کہنا شروع کیا کہ اگر اپوزیشن کانگریس اقتدار میں آ گئی تو وہ ہندوؤں کی زمین، جائیداد یہاں تک کہ مویشی اور زیورات تک ضبط کر لے گی اور انھیں مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ ایک تقریر میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آ گئی تو وہ حال ہی میں تعمیر ہونے والے رام مندر پر بلڈوزر چلوا دے گی اور ملک کے بجٹ کا 15 فیصد مسلمانوں کے لیے مختص کر دے گی۔اس طرح کے بیانوں کا ایک سلسلہ ہے۔
ان تقریروں سے وہ دو مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے ایک تو وہ ووٹروں کے ذہن میں کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو ہندو مخالف ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ ملک میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے ایک مستقل دشمن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔اس کا ووٹروں پر کتنا اثر ہو گا یہ تو نتیجوں سے پتہ چلے گا لیکن یہ سوچ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا محور بنی ہوئی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی دس برس سے اقتدار میں ہے۔ مودی عوام سے تیسری بار وزیراعظم کا مینڈیٹ مانگ رہے ہیں اور حکمران جماعت مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگ رہی ہے۔پارلیمانی انتخابات کے اب تک جو پانچ مرحلے کی پولنگ ہوئی ہے اس میں گذشتہ الیکشن کے مقابلے ووٹ کم پڑے ہیں۔ بعض انتخابی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مودی سے متعلق عوام میں جوش کی کمی کا اشارہ ہے۔رکن پارلیمان اور سابق کانگریس رہنما کپل سبل نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ’ان کے دل میں کتنا زہر بھرا ہوا ہے۔ وہ برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمان انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔
’اس لیے بھی وہ اپنی نفرتوں کا کُھل کر اظہار کر رہے ہیں لیکن لوگ ان کی اصلیت کو پہچان گئے ہیں۔ لوگوں کا اب ان سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ان کے خلاف اب پورے ملک میں ایک ماحول بن گیا ہے۔‘انتخابات اب آخری مراحل میں ہیں۔ 25 مئی اور یکم جون کو ووٹنگ کے آخری دو مرحلے پورے کیے جائیں گے۔ اس وقت انتخابی مہم پورے عروج پر ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے اتحاد کے رہنما بھی پوری شدت کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ابتدا میں مودی حامی انڈین میڈیا نے جو فضا بنائی تھی اس میں لگتا تھا کہ یہ مقابلہ بالکل یکطرفہ ہو گا لیکن پولنگ کے پہلے مرحلے سے ہی یہ تاثر ٹوٹنے لگا۔ اپوزیشن نے وسائل کی کمی، مخالف میڈیا اور دوسری تمام مشکلوں کے باوجود بی جے پی کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا ہے۔ایک طویل عرصے کے بعد کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے ایک گرینڈ الائنس بنایا ہے۔ بیشتر ریاستوں میں وہ متحد ہو کر الیکشن لڑ رہی ہیں۔سیاسی تجزیہ کار رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ’اپوزیشن کا انڈیا الائنس ایک مضبوط اتحاد ہے۔ اگر بی جے پی کے اتحاد اور انڈیا الائنس کے ووٹ کا تناسب دیکھیں تو دونوں کو 45 -45 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
’یہ بڑی اہم بات ہے۔ اکیلے اترپردیش میں ایسے 34 حلقے ہیں جہاں اپوزیشن الائنس کے پاس 40 فیصد سے زیادہ ووٹ ہے۔ وہ کرناٹک، پنجاب، کیرالہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں بہت مضبوط ہے۔ بہار اور اترپردیش میں سخت ٹکر دے رہی ہیں۔‘
رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ’بی جے پی جن موضوعات کو لے کر چل رہی تھی وہ چل نہیں پا رہے ہیں اس لیے وہ اب ہندو مسلم اور جذباتی ایشوز کا سہارہ لے رہی۔ اس کے برعکس اپوزیشن نے مہنگائی بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی سوالات کو موضوع بنا رکھا ہے۔‘
لیکن مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک رہنما اور ترجمان ڈاکٹر ہتیش باجپائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عوام میں ایک اطمینان ہے کیونکہ انھیں ملازمتیں مل رہی ہیں۔ وہ سرکاری اعداد وشمار میں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ پورے ملک میں کوئی عوامی ناراضگی نہیں ہے۔ تعلیم کا معیار پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ اس لیے ہنرمند نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ دسویں اور بارہویں پاس لوگوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔
’اب ہر ضلع میں ڈگری کالج ، ایگریکلچرل یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور انجینیئرنگ کالج کھولے گئے ہیں۔ یہ مودی حکومت کا ہدف تھا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اس لیے ملازمتوں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ سبھی اچھے اشاریے ہیں۔ عوام کو اطمینان ہے۔‘
بی جے پی نے گذشتہ انتخاب میں گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ، بہار اور جھارکھنڈ میں 95 فیصد سے زیادہ سیٹیں جیتی تھیں۔ یو پی میں اس نے 80 میں سے 64 سیٹیں جیتی تھیں۔ اپوزیشن کا الائنس اس بار ان ریاستوں میں بی جے پی کا متحد ہو کر مقابلہ کر رہا ہے۔
مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں بھی اسے انڈیا الائنس اور دوسری جماعتیں پوری طاقت سے چیلنج کر ری ہیں۔ رشید قدوائی کہتے ہیں کہ ’اب تک جو اشارے مل رہے ہیں ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کے اس مضبوط قلعے میں اس کی سیٹیں گھٹنے والی ہیں۔ کتنی سیٹیں گھٹیں گی یہ بتانا مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ جو سیٹیں گھٹیں گی وہ بی جے پی کسی دوسری ریاست سے پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘
کم وبیش پورا میڈیا بی جے پی کا حامی ہے۔ اس کے باوجود اب اس طرح کی بحث کہیں کہیں دیکھنے کو مل رہی ہے کہ بی جے پی کی کتنی سیٹیں کم ہو سکتی ہیں۔ الیکشن اب یکطرفہ نطر نہیں آ رہا ہے۔بی جے پی کو اپنے ہی گڑھ میں اپوزیشن کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انڈیا کا پارلیمانی الیکشن اب بہت دلچسپ مرحلے میں ہے۔ نتیجے چار جون کو آئیں گے۔