اکتوبر پاکستان کی سیاست کیلئے ہمیشہ مشکل ترین رہا ہے، اسی مہینے دو مارشل لاءلگے، خان لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا، اکتوبر 1988 ءمیں آٹھ سیاسی جماعتوں کا اسلامی جمہوری اتحاد بنا، 90اور 93اور 2002کے عام انتخابات اکتوبر میں ہوئے، عمران خان کا پہلا سونامی بھی 30اکتوبر 2011ءکو آیا۔ پھر انہی کی حکومت کے خلاف بھی اکتوبر ہی میں مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد پر چڑھائی کی ۔ اور پھر پی ڈی ایم بھی اکتوبر ہی میں بنی۔ اور اب ایک بار پھر اکتوبر نکالنا تحریک انصاف کیلئےبھی مشکل لگ رہا ہے اور حکومت کیلئے بھی۔ ایسا بھلا کیوں ہے؟ کیوں کہ جیسے ہم اکثر کاموں میں کہنے کے عادی ہیں کہ ”اے ذرا گرمیاں کڈ لو“ (یہ گرمی کا موسم بس نکل جائے) ۔ میرے خیال میں اکثر تحاریک میں بھی کچھ ایسے ہی کلمات دہرائے جاتے ہوں گے کہ یہ ذرا گرمیاں نکل جائیں تو پھر فلاں کی خیر نہیں! خیر یہ تو مزاحاََ کہہ رہا ہوں لیکن اس بار اکتوبر میں کچھ نیا ہی ہونیوالا ہے۔ جیسے اگر بقول حکومت 26ویں آئینی نہ ہوئیں تو پھر ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ اور اگر مذکورہ ترامیم ہو گئیں تو پھر تحریک انصاف کم از کم اگلے چار پانچ سال کیلئے منظر عام سے آﺅٹ ہو جائے گی۔ تبھی تحریک انصاف نے ”جان مار “ احتجاج کیا۔ جو ہفتے کے روز جو جمعے کو شروع ہوا اور ہفتے کو علی امین گنڈاپور کے ”غائب“ ہونے پر ختم ہوا۔ لیکن اس احتجاج کی خاص بات یہ تھی کہ حکمرانوں نے احتجاج کرنے والوں کا راستہ ایسے روکا جیسے واہگہ بارڈر پرخاکم بدہن انڈین فورس آگئی ہے اور اُسے روکا جانا ہے۔
اور پھر اس ساری کشمکش میں مسئلہ الگ عدالت کا نہیں‘ مسئلہ کچھ ناپسند فیصلوں اور ناپسند ججوں کا ہے اور اس پوری آئینی عدالت کی جنگی پیمانے پر قیام کی کاوشوں کا سیاق و سباق ملک کی موجودہ سیاسی دھڑے بندی‘ اقتدار کی کشمکش تو اپنی جگہ مگر ہنگامی طور پر کچھ اہم ترین اداروں کے سربراہوں کو مزید کچھ عرصہ کیلئےملک و قوم کی خدمت پر مامور رکھنا ہے۔ جس میں آپ یہ بات لکھ لیں کہ حکومت بظاہر کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ بے شک مولانا فضل الرحمن پہاڑ بنے رہیں اور ہم مبینہ قومی سیاسی خودکشی کے خدشات کا گلا پھاڑ پھاڑ کر اظہار کر ر ہیں‘ حکمران جو کرنا چاہتے ہیں وہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ شاید اب عوام کی دعائیں بھی کام نہ آئیں۔ زیادہ تو معلوم نہیںکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی آئینی ترمیم ہے جس کا اراکینِ اسمبلی اور سینیٹ کے پاس بھی مکمل مسودہ نہیں۔ جمہوری ممالک میں ایک ایک ترمیم پر مہینوں‘ بلکہ سالوں تک بحث ہوتی ہے۔ لیکن جو کچھ معلوم ہو سکا ہے‘ اس کے چند نکات ہی ”سیاسی خود کشی“ کے خطرے کو سمجھنے کیلئےکافی ہیں۔ پہلی بات‘آئینی پٹیشنز کو سننے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں رہے گا۔ ایسے کیسز کو ایک نئی آئینی عدالت سن سکے گی جس کے سربراہ کی تقرری صدرِ مملکت وزیراعظم کے مشورے سے کریں گے۔ اس کے بعد صدرِ مملکت اس عدالت کے چیف جسٹس سے مشورے کے بعد دیگر ججوں کا تقرر کریں گے۔ ”نیشنل سکیورٹی قوانین“ کے تحت کسی بھی افسر کے کاموں کا کوئی بھی عدالت جائزہ نہیں لے سکے گی۔ ہائیکورٹس کے ججوں کا تبادلہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ان کی منشا کے بغیر ہو سکے گا۔ حساس مقدمات کو بھی ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی قانونی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔اور پھر سب سے اہم یہ کہ یہ لوگ آئینی ترامیم کروا کر ہارس ٹریڈنگ کو فروغ دیں گے، اس کے بعد قومی اسمبلی کی سیٹوں کی بولیاں لگنا شروع ہو جائیں گی۔ وغیرہ وغیرہ اب بتائیں ایسا کرنے والی حکومت کو کیا ہم ”نیم ڈکٹیٹر“ کہہ سکتے ہیں؟ اور پھر یہی نہیں جب ان کا دل چاہتا ہے یہ اپنے لیے صدارتی آرڈیننس لے آتے ہیں، پھر مرضی کے کام کرکے یہ لوگ بیسیوں فائدے اُٹھاتے ہیں۔
بہرحال فی الوقت مجھے تو یہ بات سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ پاکستان کو کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ پاکستان کے پلے کیا چھوڑ رہے ہیں، دوچار لوگ اپنے مفاد کیلئے ایگو بنا کر جو پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اقتدار کو درست ثابت کرنا ہے، اگر کچھ شخصیات کو ایکسٹینشن دینی ہے، اگر آپ نے ایک پارٹی پر پابندی لگانی ہے، اُس کے ورکرز پر روزانہ دسیوں مقدمات کرنے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا۔ جیسا چل رہا ہے۔ آپ بے رحم طریقے سے اپنے مطابق آئین میں تبدیلیاں کر رہے ہیں،اور یہ بات تحریک انصاف بھی خوب جانتی ہے ، کہ یہ لوگ آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا چاہ رہے ہیں، من پسندوں بندوں کو اوپر لانا چاہ رہے ہیں تاکہ یہ مرضی کے فیصلے کروا سکیں۔ یا اس جماعت کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ یہ لوگ ترامیم کرکے عمران خان کو ملٹری کورٹ سے سزا دلوائیں گے، مزید جھوٹے مقدمات میں پھنسائیں گے ،،، الغرض اس جماعت کیلئےمستقل دروازے بند کر دیے جائیں گے تو ایسے میں مجھے بتایا جائے کہ تحریک انصاف احتجاج بھی نہ کرے؟ کیا وہ اپنے Survivalکی جنگ بھی نہ لڑے؟
قصہ مختصر کہ جس جماعت کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئےیہ سب کچھ کیا جا رہا ہے تو کیا وہ اپنے بچاﺅ کے لیے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کریں گے، کارکنوں کو بھی بیچ میں لائیں گے اور عوام کو بھی بیچ میں لے آئیں گے۔ ایسے میں پی ٹی آئی جائے تو کہا ں جائے؟ اور پھر جب سب کے علم میں ہے کہ الیکشن چوری ہوئے ہیں، وہ اس کی شکایت کس کو کرے؟ سپریم کو رٹ کو کرے؟ وہاں تو اس کی سنوائی نہیں ہورہی۔ اور جن ججز سے خطرات ہیں کہ یہ حق پر مبنی فیصلے کرسکتے ہیں ، آپ اُنہیں محدود کررہے ہیں۔ تو ایسے میں تحریک انصاف کیا کرے؟ کیا وہ ایسی صورتحال میں میدان خالی چھوڑ دیں؟ کہ آﺅ اور جو مرضی کرو ہمارے ساتھ؟ ہمیں جتنی ہوسکتی ہیں، سزائیں دو۔ ہمارے ساتھ سب کچھ کرو اور ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مزید دھڑے بھی بنا لو۔ جس طرح ایم کیو ایم یا دیگر جماعتوں کے بنائے گئے تھے۔
خیر موجودہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے کہ کل کو انہوں نے بھی اپوزیشن میں آنا ہے، پھر ان کا کیا حال ہوگا؟ پھر یہ لوگ ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ سعودیہ عرب، یو اے ای یا امریکا و برطانیہ سے شکوے شکایات کرتے ہیں کہ دیکھیں! ہم نے آپ کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟ مگر پاکستان میں ہمارے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے۔ اور پھر یہ اپنی دفعہ جب ان کی جماعت کے وزیر اعظم کو 2017ءمیں صرف ڈسکوالیفائی کیا تھا، حالانکہ گورنمنٹ برقرار رکھی گئی۔ کیا اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ہر جگہ جلسے جلوس نہیں کیے تھے؟ کیا انہوں نے ”مجھے کیوں نکالا“ کے عنوان سے لانگ مارچ نہیں نکالا تھا؟ کیا اُس وقت انہوں نے آسمان سر پر نہیں اُٹھا لیا تھا؟ اُس وقت عدلیہ کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا ؟ اداروں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا؟ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کس نے متعارف کروایا؟ کیا ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے خود پورا الیکشن ہی چوری کر لیا۔ اگر میری بات پر کسی کو یقین نہیں تو کیا میں اُس وقت کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے الفاظ دہرا دوں؟ جنہوں نے ن لیگی رہنما سے کہا تھا کہ فارم 47پر بات کی تو آپ کو او رن لیگ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی، کیا ان سب چیزوں کے بعد تحریک انصاف خاموش رہے؟ اور اب مخصوص نشستیں جو ایک جماعت کا حق بنتی ہیں وہ بھی نہیں دے رہے۔اُس کا کیا؟ قصہ مختصر کہ تحریک انصاف پر یقینا یہ کڑا وقت ہے، بقول شاعر
دل نہ کرو یوں ب±را وقت گزر جائے گا
وقت گزرتا رہا وقت گزر جائے گا
لیکن کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ ان کے کارکنان کو جو 9مئی کے کیسز میں اندر ہیں، ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے مگر اُنہیں پابند سلاسل کیا ہوا ہے، یہ آج تک اُنہیں سزائیں تو دے نہیں سکے۔ سنگجانی جلسے میں ان پر جو الزامات لگائے گئے، وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مضحکہ خیز قرار دیے۔ اور اب جو اسلام آباد میں ہمارا ایک پولیس اہلکار شہید ہوا ہے ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، مگر یہ حالات پیدا کون کر رہا ہے؟ مظاہرین کو احتجاج کیلئے ان کو کس نے تیار کروایا؟ کیا اس کی ذمہ دار ریاست نہیں ہے؟ ابھی آپ نے پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) کو کالعدم قرار دے دیا ہے، میں اس جماعت کی قطعاََ کبھی وکالت نہیں کرتا۔ مگر ریاست کے اس ایکشن کے بعد اب پی ٹی ایم والے کیا خاموش بیٹھیں گے؟ کیا اس کا ردعمل نہیں آئے گا؟ اور پھر یہ تنظیم تو ویسے بھی مغرب کی حمایت یافتہ ہے، تو کیا اب ایک بار پھر ریاست پاکستان کو بدنام نہیں کیا جائے گا؟ لہٰذاریاست تمام تر توجہ ایسے مسائل پر مرکوز رکھے، نہ کہ صرف ایک جماعت کو دبانے کے لیے اپنا سارا زور لگا دے۔
لہٰذاہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آیا ریاست کے اہم ترین فیصلے کون کر رہا ہے؟ کس کے مفاد میں کر رہا ہے، اور یہ کیوں نہیں سوچا جا رہا کہ بھائی اس کے دیرپا اثرات کیا مرتب ہو سکتے ہیں؟ بہرکیف حکمران یہ چاہتے ہیں کہ اکثریت اقلیت کی زیادتی کے خلاف خاموش رہے؟ یہ ملکی مفاد میں ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ ظلم بھی ہو اور خاموش بھی رہا جائے یعنی بقول شاعر حبیب جالب کے
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا یہ ممکن ہے؟ تم ہی کہو
بہرکیف ریاست احتجاج کیلئےجگہ مختص کر دے ، تحریک انصاف پر پابندیاں لگانے کے بجائے اُس سیاسی ماحول فراہم کرے، تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ اُس کی صف اول قیادت احتجاج کو آئے، کیوں کہ علی امین گنڈا پور کے احتجاج سے یہی لگ رہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کی فکر یا تو کے پی کے والوں کو ہے یا اُن کی بہنوں کو۔ جبکہ اس کے برعکس جماعت کی قیادت جن میں چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نمایاں ہیں منظر عام سے غائب ہیں۔ انہیں چاہیے کہ یہ لوگ مظاہروں کی قیادت کریں تو میرے خیال میں اچھا تاثر جائے گا۔ اور عوام بھی اسے پرامن احتجاج سمجھے گی۔ ورنہ تو میرے خیال میں اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئےکام کر رہے ہیں باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں!