کینیڈا نے ملک میں آبادی کی شرح کو عارضی طور پر روکنے کی کوشش میں تارکین وطن کی تعداد میں واضح کمی کا اعلان کیا ہے، جس سے جسٹن ٹروڈو حکومت کی پالیسی میں اہم تبدیلی آئی ہے۔ان تبدیلیوں کے تحت، کینیڈا 2025 میں مستقل رہائش پذیر افراد کی تعداد کو 5 لاکھ کے پچھلے ہدف سے کم کر کے 3 لاکھ 95 ہزار کر دے گا، جو 21 فیصد کمی ہوگی۔
وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے کووڈ کے بعد لیبر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے امیگریشن میں اضافے کا فیصلہ کیا، مگر شاید توازن درست طریقے سے نہیں رکھا جا سکا۔کینیڈا میں امیگریشن کیلئے عوامی حمایت میں کمی دیکھی گئی ہے، اور رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آبادی میں اضافے اور اس کے اثرات، جیسے کہ رہائش اور سوشل سروسز پر بوجھ، کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
یہ اقدام پہلے ہی سے اعلان کردہ اہداف میں کمی کے بعد سامنے آیا ہے جو بین الاقوامی طلباء اور عارضی غیر ملکی کارکنوں کیلئےکیے گئے تھے۔ جمعرات کو وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور کینیڈا کے امیگریشن وزیر مارک ملر نے مستقل رہائش کیلئے نئے اہداف میں مزید کمی کا اعلان کیا۔
ملر نے بتایا کہ مقصد 2027 تک نئے مستقل رہائشیوں کیلئےہدف کو 3 لاکھ 65 ہزار تک محدود رکھنا ہے۔ ٹروڈو نے کہا کہ اس کمی سے اگلے دو سالوں میں کینیڈا میں آبادی میں اضافے کو عارضی طور پر روکنے میں مدد ملے گی، جس سے صوبوں کو اپنے صحت کے پروگراموں اور رہائش کے مسائل کو بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ “کینیڈین اپنے کھلے دل والے امیگریشن سسٹم پر فخر محسوس کرتے ہیں” جس نے ملک کی معیشت کو مستحکم کیا اور متنوع کمیونٹیز کی تشکیل میں مدد کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہمارا امیگریشن نظام ہمیشہ ذمہ دار اور لچکدار رہا ہے۔ ہم آج اسلئے اقدامات کر رہے ہیں کیونکہ وبا کے بعد مشکل حالات کے باعث، لیبر کی ضروریات اور آبادی میں اضافے کو برقرار رکھنے کے درمیان ہم توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔”
وفاقی ڈیٹا کے مطابق، گزشتہ سال کینیڈا کی آبادی میں تقریباً 97 فیصد اضافہ امیگریشن کی وجہ سے ہوا۔ دوسری طرف، کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جبکہ نوجوانوں کیلئےیہ شرح 14 فیصد سے زائد ہے۔
یہ اقدام کینیڈا کی کئی دہائیوں سے جاری کھلی امیگریشن پالیسی سے ہٹ کر ہے، جس کے ذریعے ملک نے آبادی کے اہداف پورے کرنے اور لیبر کی کمی کو پورا کرنے کیلئےنئے آنے والوں پر انحصار کیا۔ 2015 میں ٹروڈو کے انتخاب کے بعد، ان کی حکومت نے سالانہ مستقل رہائشی اہداف کو 2 لاکھ 72 ہزار سے بڑھا کر اس سال 4 لاکھ 85 ہزار تک کر دیا۔ سب سے زیادہ اضافہ 2021 میں کوویڈ-19 وبا کے بعد ہوا۔
ٹروڈو اور ان کی حکومت کو خدمات اور رہائشی تعمیرات میں بہتری لائے بغیر امیگریشن بڑھانے پر تنقید کا سامنا ہے، جبکہ ماہرین معاشیات نے خبردار کیا ہے کہ کینیڈا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی نے رہائش اور صحت جیسی عوامی خدمات پر بوجھ ڈالا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں اینوائرونکس انسٹیٹیوٹ کے ایک سروے نے، جو 1977 سے کینیڈینز کے امیگریشن کے حوالے سےتجزیہ کر رہا ہے، انکشاف کیا کہ اب 58 فیصد کینیڈینز کو لگتا ہے کہ امیگریشن کی سطح بہت زیادہ ہے۔ انسٹیٹیوٹ نے کہا کہ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی رائے “قابل قبول (یا قیمتی) ہونے سے لے کر پریشان کن” سطح پر آچکی ہے۔
امیگریشن کے اہداف میں کمی پر مہاجرین کے حقوق کے حامی گروپوں، جیسے کہ مائیگرنٹ رائٹس نیٹ ورک، نے تنقید کی ہے۔ اس گروپ نے ٹروڈو اور ملر کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں کہا کہ “کینیڈا کے رہائشی بحران، نوکریوں کی کمی، یا صحت اور دیگر عوامی خدمات کی ناکافی حالت کیلئےمہاجرین ذمہ دار نہیں ہیں۔” گروپ نے مزید کہا کہ یہ مسائل دراصل “وفاقی اور صوبائی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو کہ دہائیوں سے عوامی خدمات کو ناکافی فنڈنگ اور نجی شعبے کی جانب جھکاؤ کے باعث پیدا ہوئے ہیں”۔