اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی جیسے کھربوں سیارے ایک ”آئین“ کے تحت اپنے اپنے مدار میںچل رہے ہیں، یہ سیارے اگر اس آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو یہ آپس میں ٹکرا جائیں گے، اور کائنات ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر کہیں آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ کسی بھی سیارے پر موجود وہاں کی مخلوق ضرور کر رہی ہے، ہم دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کو تو ابھی تک تلاش نہیں کر پائے مگر روئے زمین پر حضرت انسان نے تو آئین کی دھجیاں بکھیر رکھی ہیں، اس کرہ ارض پر جتنے ممالک ہیں ان میں کامیاب اور خوشحال وہی ہیں جن کا آئین ملکی عوام کے مفاد میں بنایا گیا ہے اور وہ اس آئین کی پابندی کرتے ہوں۔جبکہ اس کے برعکس جہاں آئین کی پابندی نہیں ہے، وہ تیسری دنیا کے ممالک کہلاتے ہیں، جہاں لاقانونیت، بھوک، ننگ سب کچھ عام ملتا ہے۔ اور پھر تمام ترقی یافتہ ممالک کے ادارے اپنی حدود کو بخوبی سمجھتے اور ان حدود کے اندر کام کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یورپ کے میڈیا میں کسی چیف جسٹس یا جسٹس صاحب کے ریمارکس کا ذکر نہیں دیکھا،ہم نے کبھی کسی جمہوری ترقی یافتہ ملک میں سکیورٹی اداروں کے چیفس کو حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے یا اُن پر تنقید کرتے، یا اُنہیں ہدایات دیتے نہیں سنا۔
لیکن آپ ایسی باتیں ترقی پذیر یا شورش زدہ ملکوں میں عام سنیں گے۔ اس کی مثال آپ برما، مصر، پاکستان جیسے ممالک کی دے سکتے ہیں۔ آپ ان ممالک میں پھر ترقی تو دور نارمل زندگی گزارنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ ایسے ممالک جہاں سویلین برتری نہ ہو وہاں آپ نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔ میں نے ابھی برما یعنی میانمار کی مثال دی ، وہاں ایک نحیف و نزار خاتون یعنی آنگ سان سوچی کئی عشروں سے سیاسی چیلنج بنی ہوئی ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہیں جیسے بانی تحریک انصاف کو پاکستان میں اصل جمہوریت لانے کے لیے قربانی دینا پڑ رہی ہے۔ خیر برما میں اقتدار میں شراکت کا فارمولا ضرور بنا مگر ناکام ہو گیا۔ یہ ہائبرڈ ماڈل تھا جو زیادہ دیر چلا نہیں۔ پہلے یہ کہا گیا کہ سوچی کے شوہر چونکہ غیر ملکی تھے لہٰذا وہ صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتیں۔ سوچی نے اقتدار میں جونیئر پوزیشن قبول کر لی لیکن مقتدر حلقے اسے بھی ہضم نہ کر سکے۔ ان کی مقبولیت چونکہ زیادہ تھی، اور آج بھی زیادہ ہے، لہٰذا اب وہ سالوں سے گھر میں قید ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ میانمار میں نہ ہی استحکام آیا اور ہی معیشت سنبھل سکی۔
آپ مصر کی مثال لے لیں، مصر میں بھی محمد مرسی کو مدتِ اقتدار پوری ہونے سے پہلے ہی فارغ کردیا گیا اور الزامات لگا کر قید کر لیا گیا۔ ان کا جیل میں ہی انتقال ہوا۔ جنرل سیسی کی قیادت میں مصر بظاہر مستحکم نظر آتا ہے لیکن پہلے والا طمطراق کھو بیٹھا ہے۔1973ءمیں مصر اسرائیل کو چیلنج کرنے کے قابل تھا۔ آج وہ یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ہاں مرسی کے زمانے میں یہ صلاحیت ضرور تھی ، مگر جنرل سیسی نے اُسے اقتدار سے ہٹا کر وہاں قابض ہو گیا۔ اور مغرب کی سرپرستی میں آج بھی وہاں دکٹیٹر شپ قائم ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی 77سالہ تاریخ میں تین مارشل لاﺅں اور متعدد نیم مارشل لاءادوار کا سامنا رہا ہے، تبھی یہ ملک کسی ایک ڈگر پر نہیں چل سکا۔ آج بھی مغرب ہمیں نیم جمہوری ملک کے طور پر جانتا ہے، جہاں آزاد حکومت تو دور کی بات آپ آزادی سے کوئی بات بھی نہیں کر سکتے۔ اس میں قصور کسی اور کا نہیں ہوتا، بلکہ قصور جمہوری حکومتوں کا ہوتا ہے، جو طاقت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو سیاست طاقت کے لیے ہے اور طاقت سیاستدانوں کو مضبوط کرنے کے لیے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ یہ مضبوطی منفی رجحان کو جنم دیتی ہے، جیسے اگر مسلم لیگ ن اقتدار میں ہے تو اُس کی کوشش ہوتی ہے، کہ زیادہ سے زیادہ طاقت اکٹھی کرے۔ اور اپنے دور اقتدار کو دوام بخشے۔ اس کے لیے وہ اداروں کو ساتھ ملانے اور اُنہیں بلاوجہ اپنے گھر کا صاف راستہ دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
تبھی ان کے وزیر اعظم مختلف تقریبات میں ”بڑوں“ کی تعریفیں کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے حال ہی میں ڈی چوک تحریک انصاف کے مظاہرین سے بے رحمی سے خالی کروایا گیا تو پہلے دن تو حکومت اس کی داد وصول کرتے نہیں تھک رہی تھی۔ لیکن جوں جوں بادل چھٹے اور کلئیر ہوا کہ گولیاں چلائی گئی ہیں تو اس پر وزیر اعظم موصوف بڑے میسنے اور دھیمے مزاج سے سارا ملبہ آرمی کی قیادت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات تو ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، کہ براہ راست تو افواج کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ اور ملک کا آئین بھی کہتا ہے کہ ملک میں سب سے سپیرئیر عوام ہیں، اُس کے بعد عوام کے منتخب کردہ نمائندے یعنی پارلیمنٹ، اُس کے بعد وزیر اعظم، اُس کے بعد دفاعی وزرائ، پھر سیکرٹری ڈیفنس، پھر آپ کی آرمی کے ادارے آتے ہیں۔ لہٰذااگر پروٹوکول بھی دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ براہ راست کیسے سکیورٹی ادارے عمل دخل بڑھا سکتے ہیں۔
لیکن یہ ساری باتیں ایک طرف مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اقتدار میں اگر شہباز شریف ہیں، نواز شریف ہیں، زرداری ہیں یا بلاول ۔ سبھی بڑوں کی کیئرٹیکنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ تو کیا ایسے میں ممکن ہو سکے گا کہ آپ جمہوری حکومت کو مضبوط کر سکیں؟ پھر تو بادی النظر میں آپ نے ان جماعتوں کو اپنی بیساکھیاں بنا رکھا ہے۔ جن کے بغیر آپ ایک قدم نہیں چل سکتے۔ اور پھر آپ کسی ادارے کے احسان مند کیوں ہیں؟ حالانکہ ان کی تو ذمہ داری ہے، ہم یہ بات بالکل نہیں کر رہے کہ کون اچھا ہے کون برا ہے، لیکن یہ بات ضرور نوٹ کرنی چاہیے کہ اداروں کو مداخلت کا بڑھاوا دے کون رہا ہے؟ اور پھر کیا جمہوری ملکوں میں یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو پھر خدارا ہمیں خود اس چیز کو دیکھنا چاہیے، ہمیں ایسے سیاستدانوں کو خود ہی نکال باہر کرنا چاہیے جو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اداروں کو ملوث کر رہے ہیں۔ ہمیشہ جمہوری ملکوں میں سیاستدانوں کی لڑائیاں سیاست سے ہوتی ہیں۔ کسی تیسری قوت کی جرا¿ت نہیں ہوتی کہ سیاستدان اُس کو اپنے اندر بھی آنے دیں۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی اس کی مثال جنوبی کوریا کے حالیہ 6گھنٹوں پر مشتمل مارشل لاءکی دی تھی، کہ وہاں مارشل لاءلگا، تو سیاستدان (اپوزیشن و حکومتی اراکین) اور عوام سبھی ساتھ مل گئے، پارلیمنٹ سے قرارداد منظور ہوئی، اور ساتھ ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور چند گھنٹوں میں مارشل ختم کرنا پڑا۔
لیکن یہاں تو سب کچھ 180کے زاویے سے اُلٹا چل رہا ہے، اور یہ بات بھی ہم آج تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہے کہ ہمارے اداروں کے سربراہان خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں؟ دوسرے اداروں اور دوسروں کے کام میں مداخلت کو اپنا حق گردانتے ہیں؟ لیکن اپنے ادارے کے اندر کی خرابیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے اندر مختلف مذاہب، مختلف نسلوں اور مختلف رنگوں کے لوگ رہتے ہیں۔وہاں تعصب بھی ہے بالخصوص اکثریت مسلمان اقلیت سے تعصب رکھتی ہے لیکن جیسے ہی کوئی مرد یا عورت کسی بڑے عہدے پر بیٹھتے ہیں ان میں تعصب کا شائبہ تک بھی نہیں رہتا پھر ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے، نہ کوئی نسل ہوتی ہے نہ ان کے کوئی سیاسی نظریات رہ جاتے ہیں وہ صرف اور صرف آئین میں دئیے گئے اپنے اختیارات کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی پوری دیانتداری سے کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں جو جس عہدے پر بیٹھتا ہے وہاں اس کی سوچ، اپنے نظریات اور اپنے کام کرنے کے طریقہ کار کی جھلکیاں صاف نظر آتی ہیں ہمارے ہاں مختلف سیاسی جماعتیں انتظار کرتی ہیں کہ فلاں ادارے میں اپنا آدمی آ جائے پھر سب کچھ ہماری مرضی سے ہو گا۔حالانکہ کوئی بھی ادارہ ریاست سے بڑا نہیں اور ریاست پر حکمرانوں کو منتخب کرنے کا اختیار صرف عوام کو ہے۔
بہرکیف ہمیں ایسی حکومت کی ضرورت ہے جسے عوام کی تائید حاصل ہو۔ ایسی حکومت کے حصول کیلئے ہمیں نئی سوچ اور تجاویز کی ضرورت ہے ورنہ گول دائروں کا ہمارا سفر جاری رہے گا۔ بھارت قابلِ قبول الیکشن کرا کے سیاسی اور معاشی استحکام حاصل کر چکا ہے۔ وہاں جمہوری حکومت اس قدر مضبوط ہے کہ ادارے خود ہی ایک دوسرے کی حدود کا خیال رکھتے ہیں، نہ تو وہاں پر سپریم کورٹ سیاست میں عمل دخل دیتی ہے، نہ آرمی سپریم کورٹ پر حاوی ہے، نہ سیاستدان کسی کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور نہ ہی کوئی ڈکٹیشن لیتا ہے۔ ایسا صرف اسی لیے ہوتا ہے کیوں کہ وہاں ادارے مضبوط ہیں اور پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ دنیا آپ کو پھر اُسی نظر سے دیکھتی ہے کہ ادارے مضبوط ہیں، کام کر رہے ہیں، جمہوریت ہے؟ اس جمہوریت میں کسی بیرونی و اندرونی طاقت کا عمل دخل تو نہیں؟ جب یہ سب باتیں ٹھیک ہیں تو پھر ملک بھی ترقی کرتا ہے، آئین کی اہمیت بھی برقرار رہتی ہے۔ اور پھر بیرونی سرمایہ کاری کا آنا بھی کنفرم ہوتا ہے۔ جس کے آگے فی الحال فل سٹاپ لگا ہوا ہے!