جنرل فیض سے تفتیش فوج کررہی ہے ’یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے: عمران خان

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے جنھیں ضائع کر دیا گیا۔جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض سے تفتیش فوج کررہی ہے۔ ’یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، مجھے اس سے کیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جنرل فیض حمید کا احتساب ہو رہا ہے تو سب کا احتساب ہونا چاہیے۔خیال رہے کہ سوموار کے روز پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور وہ فوجی تحویل میں ہیں۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی ’کورٹ آف انکوائری‘ کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف ’مناسب تادیبی کارروائی شروع کرنے اور فیض حمید کے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی‘ کی بات کی گئی تھی۔سابق وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ انٹیلیجنس بیورو کی رپورٹس تھیں کہ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان ہر وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر جنرل فیض کو ہٹایا تھا۔عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کو ہٹانے پر ان کی جنرل باجوہ سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید ہمارا اثاثہ تھے جنھیں ضائع کر دیا گیا۔جمعرات کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض سے تفتیش فوج کررہی ہے۔ ’یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، مجھے اس سے کیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر جنرل فیض حمید کا احتساب ہو رہا ہے تو سب کا احتساب ہونا چاہیے۔خیال رہے کہ سوموار کے روز پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور وہ فوجی تحویل میں ہیں۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی ’کورٹ آف انکوائری‘ کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف ’مناسب تادیبی کارروائی شروع کرنے اور فیض حمید کے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی‘ کی بات کی گئی تھی۔

سابق وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ انٹیلیجنس بیورو کی رپورٹس تھیں کہ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان ہر وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر جنرل فیض کو ہٹایا تھا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید کو ہٹانے پر ان کی جنرل باجوہ سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں جنرل فیض کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے نہیں ہٹانا چاہتے تھے کیونکہ افغانستان اور طالبان کا مسئلہ درپیش تھا۔

کمرہ عدالت میں موجود صحافی بابر ملک کے مطابق ایک سوال کے جواب میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ’وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے جنرل فیض کا نو مئی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے میں کہہ رہا ہوں اگر جنرل فیض کا نو مئی کے واقعات سے کوئی تعلق ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیئے اور جوڈیشل کمیشن کے ذریعے سارے ثبوت سامنے لائے جائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وزیرِ دفاع نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی بات کر کے میرے موقف کی تائید کی ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’مخصوص نشستوں کے فیصلہ پر عمل نہ کر کے یہ آئین کی تیسری مرتبہ خلاف ورزی کریں گے اور پی ٹی ائی کو مخصوص نشستیں نہ دینے اور آئین کی خلاف ورزی پر میں پارٹی کو ابھی سے تیار کر رہا ہوں۔‘

٭ ’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟

کمرہ عدالت میں موجود جیل کے ایک اہلکار کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان صحافیوں سے گفتگو کرنے لگے تو وہاں پر موجود جیل کے عملے نے انھیں ایسا کرنے سے روکا جس کی وجہ سے عمران خان اور کمرہ عدالت میں موجود جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

سابق وزیر اعظم نے جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اوپن کورٹ ہے اور وہ میڈیا سے ضرور بات کریں گے جس کے بعد سابق وزیر اعظم نے میڈیا کے نمائندوں کے چند مزید سوالوں کے جواب بھی دیے۔

دوسری جانب 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت 17 اگست تک ملتوی کردی گئی۔ نیب کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم پر آج پانچویں مرتبہ بھی جرح نہ ہوسکی۔ ملزمان کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہمارے متعدد کیسز لگے ہیں سماعت ملتوی کی جائے۔

سماعت کے دوران بشریٰ بی بی روسٹرم پر آگئیں اور عدالت کو بتایا کہ نیب نے نئے توشہ خانہ کیس میں مجھے سوال نامہ دیا تھا جیل حکام میرے کمرے سے سارے کاغذات اٹھا کر لے گئے ہیں اور وہ نیب کے سوال نامے کا جواب تیار کررہی تھیں۔جس کے بعد عدالت نے ڈپٹی سپرینڈنٹ کو نیب کے کاغذات بشریٰ بی بی کو واپس کرنے کی ہدایت کردی۔

اپنا تبصرہ لکھیں