جنگ انسانی تاریخ کے ارتقائی سفر کا لازمی حصہ ہے۔ یہ صرف سیاسی غلطیوں یا زمینی تنازعات کا سلسلہ نہیں، بلکہ زندگی کا بنیادی اظہار ہے—ایک مسلسل بہاؤ جو ہر اس تہذیب کی رگوں میں دوڑتا ہے جو کبھی ابھری اور پھر زوال کا شکار ہوئی۔ میرے زمانۂِ طالب علمی کا پسندیدہ ہسٹریوں گرافر، اوسوالڈ سپینگلر نے اپنی فلسفیانہ شاہکار تصنیف The Decline of the West میں ایک حتمی اور سنجیدہ انداز میں کہا:
“تاریخ اقوام کی مسلح جدوجہد کی تاریخ ہے۔ امن صرف ایک وقفہ ہے جس دوران طاقتور اپنی طاقت بحال کرتے ہیں اور کمزور فنا ہو جاتے ہیں۔ جنگ کا حتمی مفہوم زمین یا وسائل کی فتح نہیں بلکہ وجود کو منوانا ہوتا ہے۔ وجود کا ہونا دراصل جدوجہد کرنا ہے—یہی زندگی کا قانون ہے۔ جو اقوام جنگ سے انکار کرتی ہیں، وہ دراصل زندگی سے انکار کرتی ہیں۔”
سپینگلر کے نزدیک جنگ کوئی حادثہ نہیں بلکہ تقدیر ہے۔ یہ نہ اخلاقی معاملہ ہے نہ سفارتی—بلکہ وجودی ضرورت ہے۔ جیسے پودا روشنی کی طرف بڑھتا ہے، ویسے ہی تہذیبیں وسعت حاصل کرتی ہیں، ٹکراتی ہیں، اور جنگ کے ذریعے فنا یا بقا پاتی ہیں۔ ان کے نزدیک جنگ وجود کا خالص ترین اعلان ہے—ایک آزمائش ہے جس میں ثقافت یا تو اپنی زندگی کی حرارت کو ثابت کرتی ہے یا اپنی آخری زوال پذیری کو بےنقاب۔
سپینگلر کی سوچ کوئی الگ تھلگ خیال نہیں بلکہ وہ ایک وسیع تاریخی روایت سے جُڑی نظر آتی ہے، جسے ماضی اور حال کے متعدد مؤرخین نے پیش کیا ہے۔ ان میں ابن خلدون کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے صدیوں پہلے اپنی معرکة الآرا تصنیف “مقدمہ” میں انسانی تاریخ کو عروج و زوال کے دائروی چکر کے ذریعے سمجھنے کی بنیاد رکھی۔ ابن خلدون کے نزدیک جنگ کا تصور ‘عصبیّت’ (یعنی گروہی یکجہتی اور اجتماعی روح) سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ قبائلی گروہ، جن میں عصبیّت شدید ہوتی ہے، زوال پذیر شہری ریاستوں پر غلبہ حاصل کرتے ہیں جو آرام و آسائش کے باعث کمزور ہو چکی ہوتی ہیں۔ لیکن جب یہی قبائل خود ریاست بناتے ہیں تو ان کی داخلی یکجہتی کمزور ہو جاتی ہے، ان کی جنگی روح ماند پڑتی ہے، اور یوں وہ بھی نئے حملہ آوروں کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔
وہ جنگ کو عظمت کے طور پر نہیں بلکہ ایک فطری عمل کے طور پر دیکھتے ہیں—ایسا عمل جو اقتدار کی تبدیلی اور سماجی تجدید کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “اقتدار کی جدوجہد انسانوں کے لیے فطری ہے۔ جنگ محض وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے حکمران خاندان بنتے ہیں، زوال کا شکار ہوتے ہیں، اور بدل جاتے ہیں۔” اس تاریخ بینی میں جنگ کوئی اختیار نہیں بلکہ ایک ناگزیر عمل ہے جو سماجی انحطاط کے نتیجے میں جنم لیتا ہے۔
جہاں سپینگلر جنگ کو وجود کی روحانی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں اور ابن خلدون اسے حکمرانی کی تبدیلی کی قوت مانتے ہیں، وہیں آرنلڈ ٹوئن بی چیلنج کے طور پر ایک اور زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ “A Study of History” میں ٹوائن بی دلیل دیتے ہیں کہ تہذیبیں محض بیرونی حملوں یا فوجی شکست سے تباہ نہیں ہوتیں، بلکہ اس وقت زوال پذیر ہوتی ہیں جب وہ درپیش چیلنجز کا تخلیقی طور پر جواب دینے میں ناکام رہتی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: “جنگ ایجاد کے لیے ایک زبردست محرک ہے مگر سمت کے تعین کے لیے کمزور گائیڈ ہے۔ تہذیبیں جنگ سے نہیں مرتیں بلکہ اس کا تخلیقی جواب نہ دینے سے مرتی ہیں۔” ٹوئن بی کے نزدیک جنگ نہ تو تقدیر ہے نہ صرف ایک فنکشن—بلکہ یہ ایک آزمائش ہے۔ اگر اس کا سامنا تدبّر، فراست اور تخلیق سے کیا جائے تو تہذیب نئی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہے۔
تاہم اگر قیادت جمود اور سختی کا شکار ہو تو وہی جنگ تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ سپینگلر کے تقدیر پرستی اور ابن خلدون کے عمرانیاتی تناظر کے برعکس، ٹوائن بی تہذیبوں کو ایک قسم کی اختیاری قوت فراہم کرتے ہیں۔ جنگ ایک آپرچونیٹی ہے—کٹھن اور خطرناک—مگر اس کے ذریعے معاشرے یا تو ارتقا پاتے ہیں یا فنا ہو جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ اس تخلیقی اقلیت کی بصیرت پر منحصر ہوتا ہے جو ان کی قیادت کرتی ہے۔
یہ تین عظیم مفکر — سپینگلر، ابن خلدون، اور ٹوئن بی — اگرچہ جنگ کی تعریف نہیں کرتے، لیکن وہ سب اسے تاریخ کے عمل میں ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ چاہے یہ کسی قوم کی روح کا اظہار ہو، حکمرانی کی تبدیلی کا ذریعہ ہو، یا تخلیقی ارتقا کا امتحان — جنگ تہذیبوں کی سب سے گہری سچائیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔
جنگ نہ تو انسانی فطرت سے انحراف ہے، نہ ریاستی ناکامی — بلکہ ایک آئینہ ہے جو یہ دکھاتا ہے کہ کوئی تہذیب زندہ ہے یا نہیں، یکجا ہے یا منتشر، اور کیا وہ ان سخت آزمائشوں کا سامنا کر سکتی ہے جو تاریخ اس کے سامنے رکھتی ہے۔ ان تینوں کے جداگانہ تصورات—تقدیر، عصبیّت، اور تخلیقی جواب ہمیں ایک مشترکہ بصیرت تک پہنچاتے ہیں: جنگ صرف انسانی داستان کا حصہ نہیں، بلکہ خود وہ داستان ہے۔جنگ سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر جنگ مُسلّط ہوتی ہے تو ہم اس کا تخلیق، جرأت اور فہم و فراست کے ساتھ خیر مقدم کریں۔ ہم جنگ کے بغیر بھی مر سکتے ہیں—لیکن وہ موت جو خوف یا غلامی میں آئے ایسی موت سب سے زیادہ بےمعنی ہے۔ اس کے برعکس، ایک جنگ میں جان دینا وہ قربانی ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا گیا، شاعری کی گئی گیا، اور خراج تحسین پیش کیا گیا۔
ایسی موت اقوام کی اجتماعی یادداشت میں امر ہو جاتی ہے۔ ایسی قربانی کے ذریعے معاشرے صرف عزت ہی نہیں بلکہ ارتقا، تجدید، اور نئی بلندیوں تک پہنچنے کا موقع بھی پاتے ہیں۔ جنگ بلاشبہ سفّاک ہو سکتی ہے، لیکن اسی کی آگ میں تہذیبیں آزمائی جاتی ہیں—اور وہ دوبارہ جنم لیتی ہیں۔تاریخ کے ان تینوں بڑے مفکروں کا پیغام ایک ہے: جنگ سے انکار زندگی سے انکار ہے۔ جنگ ایک ایسا امتحان ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کون سی تہذیب باقی رہے گی اور کون سی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔ یہ ایک بے رحم عمل ضرور ہے، لیکن اسی کی آگ میں قومیں کندن بن کر نکلتی ہیں۔
لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ صرف ہمت سے نہیں جیتی جاتی—بلکہ بڑے وژن، گہری حکمت، اور مضبوط قیادت کی متقاضی ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کی قیادت چھوٹے ذہنوں، خودغرض عناصر یا کمینوں کے ہاتھ میں ہو، تو ایسی جنگ تباہی بن کر نازل ہوتی ہے۔ قومیں صرف اُس وقت جنگ سے سرخرو ہوتی ہیں جب ان کی قیادت اونچے ذہنوں، بلند حوصلوں اور وسیع نظر رکھنے والوں کے پاس ہو جو سب کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔
پس اگر جنگ درپیش ہو، تو قوم کو نہ صرف دلیر ہونا ہوگا، بلکہ ایسی قیادت کا انتخاب بھی کرنا ہوگا جو اسے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکے۔ جنگوں سے قومیں مرتی بھی ہیں اور بنتی بھی—فیصلہ قیادت پر ہوتا ہے اور قیادت سے مراد ایک شخص نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک متحرک قوت جو مشترکہ وژن، باہمی اعتماد، اور مختلف صلاحیتوں کو ایک مقصد کے لیے بروئے کار لانے کی صلاحیت پر قائم ہوتی ہے۔
