جنیفرلوپیز سعودی عرب میں کنسرٹ کر چکی ہے۔ ابھی وہاں ایک بین الاقوامی فلم فیسٹیول ہوا جس میں چوٹی کے اداکار اوراداکارائیں شامل تھیں۔ ایک فوٹو اخبارات میں چھپ چکا ہے جس میں ایک سعودی فلم پروڈیوسردو خوبرو خواتین کے ساتھ کھڑا ہے اورہاتھ اُس کے دائیں بائیں گئے ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی عرب ایک نئے راستے پر چل پڑا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان نئے اقدامات پر ہمارے معتبر علمائے کرام نے چپ سادھ رکھی ہے۔ سعودی عرب کے لحاظ سے تو یہ انقلابی چیزیں رونما ہو رہی ہیں لیکن ہمارے علمائے کرام کی طرف سے ایک لفظ بھی نہیں کہا جارہا۔ سہمے بیٹھے ہیں یا جسے انگریزی میں شیل شاک کہتے ہیں‘ وہ اُن کی کیفیت ہو گئی ہے۔ کچھ تو قوم کی راہنمائی فرمائیں‘ کچھ ہم جیسے گناہگاروں کو راستہ بتلائیں کہ جب سعودی عرب میں اتنا کچھ ہو رہا ہے توپاکستان جو اعتقاد کے حوالے سے سعودی عرب کا ایک قسم کا پیروکار رہا ہے‘ کو کیا کرنا چاہیے۔
سعودی عرب والے مدارس کی تشکیل ِنو کر رہے ہیں‘ یہاں حضرت مولانا فضل الرحمن مدارس کے کسی قانون کے حوالے سے سیخ پا ہو رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے‘ سعودی عرب کس جانب چل پڑا ہے اور ہم جو اَب تک پاکستان کو پتا نہیں کس قسم کا قلعۂ نظریات سمجھتے ہیں‘ ماضی کے رویوں میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ اُن سے نکلنے کی ہمیں کوئی تدبیر نہیں سوجھتی۔ اب تک تو اگرسارے مسلکوں کے نہیں لیکن بہت سے مسلکوں کے علمائے کرام سعودی عرب کو مشعل راہ سمجھتے تھے۔ ایک قسم کی وہاں سے روحانی راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ پاکستان میں سعودی عرب کی اہمیت صرف ریالوں کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ روحانی پہلو بھی تھا جس کی وجہ سے ہمارے لوگ اُس کی طرف دیکھتے تھے۔ لیکن جب سے جنیفرلوپیز اوراُن کی طرح کے فلمی اورموسیقی ستاروں نے سعودی عرب کا رخ کرنا شروع کیا ہے‘ ہمارے علمائے کرام کی حالت عجیب سی ہو گئی ہے۔ کچھ تو ہمیں درس دیں ‘ کچھ بتلائیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
مانا سعودی عرب کے پاس نوٹ ہیں اور ہمارے پاس نوٹوں کی شدید کمی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے پاس اتنے نوٹ ہیں کہ کسی کا بھی ‘موڈ‘ بن سکتا ہے۔ گناہگاروں کو تو ایک طرف رکھیے‘ کون کافر وہاں کی دعوت کا انکار کرے۔ انسانی زندگی میں نوٹوں کی یہ طاقت ہے اور جیسے عرض کیا نوٹ وہاں وافر ہیں۔ یہاں نوٹ نہ ہوں گے لیکن جن خولوں میں ہم نے پاکستانی معاشرے کو قید کیا ہوا ہے سارے نہیں کچھ کو تو اُتار کر ایک طرف رکھ سکتے ہیں۔ جنیفر لوپیز نے یقینی طور پر یہاں نہیں آنا‘ اُس کا معاوضہ پورا کریں تو ہماری معیشت مزید بیٹھ جائے۔ لیکن پاکستانی ثقافت کے علمبردار جو لاہور کے رنگین کوچوں کو چھوڑ کر دبئی ہجرت کرچکے ہیں اُن کیلئے تو ماحول یہاں کچھ بہتر بنایاجاسکتا ہے تاکہ پاکستان میں بھی اُن کا روزگار پرانے وقتوں کی طرح چمک سکے۔ دبئی مسلمان ملک ہے اورہم توویسے ہی اسلام کے ٹھیکیدار ہیں‘تو ہم نے اپنے میں اوردبئی میں اتنا فرق کیوں بنا رکھا ہے؟ جائیں لاہور کے پرانے علاقوں میں‘ ویران پڑے ہیں۔ ہم تو اپنی بھٹکی جوانی میں شاہی قلعے سے متصل علاقوں میں کبھی کبھار چلے جایا کرتے تھے۔ جیب میں کچھ خاص ہوتا نہیں تھا لیکن پھر بھی ادھر اُدھر نظر مار لیا کرتے تھے۔ کیا رونقیں اُس زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ جہاں ہم نے اتنا کچھ اُجاڑ دیا ہے وہ رونقیں بھی اُجڑ گئیں اور ہمارا نقصان دبئی کا فائدہ بنا۔
جس علمبردارِ ثقافت کو دیکھیں یا تو دبئی میں قیام ہے یا وہاں جانے کی سدھار رہے ہیں۔ پیرانِ قوم سے پوچھا تو جائے یہاں رہ کون جائے گا۔ ڈاکٹر اور انجینئر پہلے ہی مغرب کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ثقافت کے علمبردار سب سے سیانے نکلے کیونکہ دبئی کی پہچان رکھنے والوں میں وہ سب سے آگے تھے۔ دنیا بھر کی ثقافت کی نمائندگی دبئی میں ہوتی ہے لیکن پاکستانی ثقافت کاروں نے اپنی مقام بنالیا ہے۔ لاہور اُجڑ گیا‘ دبئی آباد ہے۔ اس لحاظ سے لاہور بالکل خالی نہیں ہوا لیکن اوپر سے ملائی ہٹالی جائے توپیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ اس موضوع پر بھی رہبرانِ قوم بالکل چپ ہیں۔ پیپلزپارٹی کا بیکار کا نعرہ ہے کہ بھٹو زندہ ہے۔ بھٹو بیچارے نے کیا زندہ ہونا ہے‘ اصل میں زندہ تو ضیا الحق ہے۔ ایسی چھاپ اس ملک پر مرحوم چھوڑ گئے کہ اب تک کوئی مٹا نہ سکا۔ جو بھاشن وہ دیتے تھے اور جن بھاشنوں کے بل بوتے پر گیارہ سالہ حکمرانی اُنہوں نے چلائے رکھی وہ قوم کے مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ بحیثیتِ معاشرہ ہم زیادہ نیک چلن ہو گئے ہیں لیکن منافقت ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔
جن ہاتھوں کو اس بیچاری قوم کو ہانکنے کی سعادت نصیب ہے اُنہیں ہماری اجتماعی حالت پر غور کرنا چاہیے۔ سعودی عرب قسم کا تیل یہاں نکلنا نہیں۔ نوٹوں کی کمی رہے گی۔ ذرائع روزگار محدود ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ نکمی اور خودغرض حکمرانی سے چھوٹ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اگر یہ ہماری حالت ہے روحانی شکنجے تو پھر ذرا ڈھیلے کر دیے جائیں‘ لوگوں کو سیاسی آزادی نہ سہی کچھ اخلاقی آزادی تو مل جائے۔ یہ توبہت زیادتی ہے کہ سیاسی آزادیوں پر تالے لگے ہوں اور اوپر سے اخلاقی جبر بھی ہو۔ بابائے قوم یا حکیم الامت کی زندگیوں میں کیا اس قسم کا اخلاقی جبر ہندوستان میں پایا جاتا تھا؟ انگریز کے زمانے میں گو وہ باہر کے حکمران تھے‘ سیاسی آزادیاں آج سے زیادہ تھیں اور جہاں تک موج میلے کی آزادیاں ہیں‘ اُن پر تو بالکل کوئی قدغن نہ تھی۔ بطورِ قوم کیسی ہماری قسمت کہ ہر قسم کی پابندی اپنے اوپر ہم نے لگا رکھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی جستجو‘ ان چھوٹی چیزوں کا ذکر میں کیا کروں‘ جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے۔ اگلے روز اسلام آباد گیا تو میرا نواسہ اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کی داستانِ شب سنانے لگا۔ بتایا کہ ایک صاحب جس کی ہوٹل کے اندر تک رسائی ہے شام ڈھلے ملحقہ سڑک پر نکلتے ہیں تو کاروں کی ایک لمبی قطار انتظار میں ہوتی ہے کہ خوشی کے اس سوداگر سے فیض پا سکیں۔ یہ حالت ہم نے اپنی کی ہوئی ہے۔ رہبرانِ قوم کو ان پہلوؤںپر سوچنا چاہیے اور جو آئے روز کبھی وی پی این کو غیراسلامی قرار دیتے ہیں یا سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ کو اپنے سر پر بٹھایا ہوا ہے کچھ تو سوچیں کہ اِس قوم کا کیا بتنگڑ بنایا جا چکا ہے۔
جنیفرلوپیز کسی اور ملک کو نصیب ہولیکن یہاں چھوٹی موٹی آسانیاں تو پیدا ہوں۔ ضیا الحق کو گئے ایک زمانہ بیت چکا ہے۔ تب پاکستان کی آبادی دس کروڑ تھی آج چوبیس تک پہنچ چکی ہے۔ اتنا کچھ ہو چکا ہے لیکن ضیا الحق جو چند قوانین پیچھے چھوڑ گئے اُنہیں چھونے کی کسی کو ہمت نہیں۔ انہی قوانین کی طرف اشارہ کرکے میں نے وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ اور آپ کچھ کریں یا نہیں گناہگاروں کیلئے کچھ آسانیاں پیدا کر دیں۔ ہاتھ پھیلا کر اُنہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اورشہبازگل کی طرف دیکھا۔ میٹنگ ختم ہوئی توشہبازگل نے کہا کمال ہو گیا اب تو بہت کچھ ہو جائے گا۔ ہوا کچھ بھی نہیں۔ سعودی عرب میں محمد بن سلمان نے کوئی ڈرامائی قسم کے اعلانات نہیں کیے لیکن نئی راہیں انہوں نے کھول دیں۔ یہاں بھی کسی ڈرامائی اعلان کی ضرورت نہیں‘جو بھی حکمرانی کے جوہر دکھانے بیٹھے ہیں‘ چھوٹی موٹی تبدیلیاں ہی معاشرے میں لے آئیں۔ لوگوں کا بھلا ہوگا‘دھندہ کرنے والوں کے بجائے قومی خزانے کو فائدہ ہونے لگے گا۔