جیت کی خوشی میں عام معافی دی جائے!

اسلام کا بغور مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے، کہ ہر فتح کے بعد درگزر اور عام معافی کا اعلان کیا گیا،،، تو کیا ایسے میں پاکستان میں بھی قید سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں ہونا چاہیے؟ آپ فتح مکہ کو دیکھ لیں، جس کے بعد آپ ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا تھا، فتحِ مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے علاوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد محمد نے سب کو عام معافی دے دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ آپ نے ان سے شرک نہ کرنے، زنا اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر بیعت لی۔ اور انھیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتدا ثابت ہوئی۔پھر جب یروشلم فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رعایا کو جو حقوق دیے تھے ،اس کا مقابلہ اگر اس زمانہ کی او ر سلطنتوں سے کیا جائے ،تو کسی طرح کا تناسب نہ ہوگا۔
پھرآپ نے اپنے چچا کی قاتل ہندہ کو معاف کردیا تھا، یعنی فتح مکہ کے موقع پر ہی عورتیں رسولکے پاس بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئیں تو آپ نے حضرت عمر ؓکو حکم دیا کہ وہ عورتوں سے کہیں کہ رسول تم سے اس بات پر بیعت لیتے ہیں کہ تم ا للہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ان بیعت کے لئے آنے والوں میں حضرت ہندہ بھی تھیں جو عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی اور حضرت ابوسفیان کی بیوی تھیں، یہی تھیں جنہوں نے اپنے کفر کے زمانے میں حضور کے چچا حضرت حمزہ ؓکا پیٹ چیر دیا تھا۔ اس وجہ سے یہ ان عورتوں میں ایسی حالت میں آئی تھیں کہ انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔ اس نے جب فرمان سنا تو کہنے لگی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں ، لیکن اگر بولوں گی توحضورمجھے پہچان لیں گے اور اگر پہچان لیں گے تو میرے قتل کا حکم دے دیں گے، لیکن آپ نے اُسے معاف کر دیا۔ لہٰذامعاف کرنا حضور کی سنت معاف کرنا ہے۔نواز شریف کو بھی ایک سے زیادہ مرتبہ معافی ہوئی، زرداری کو بھی کئی بار معافی ملی ، دیگر سیاستدانوں کو بھی ایک سے زائد مرتبہ معافیاں ملیں۔
لہٰذا اگر پاکستان جیت چکا ہے تو فیصلہ کرنے والوں کو چاہیے کہ جتنی نرمی دکھا سکتے ہیں،،، دکھائیں،،، کیوں کہ یہ وقت زخموں کو کریدنے کا نہیں ہے کہ کس نے کیا کیا؟اور رہی جنگ کی بات تو یہ مت سمجھیں کہ یہ ختم ہوچکی ہے، ہم نے وقتی جنگ ضرور جیت لی مگر اس جیت کا اعلان ہمیں اُس وقت کر نا چاہیے جب سندھ طاس معاہدہ بحال ہو، اور بھارت واپس 5اگست 2019ءوالی پوزیشن پر واپس چلا جائے،،، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری افواج نے ایک ہی وار میں دشمن کو دن میں تارے دکھادیے ، آج ایک بار پھر پاکستان ایئر فورس کنگ آف سکائیز ثابت ہوئی ہے۔ قوم اپنے وطن کے ان جانبازوں کو کبھی نہیں بھولے گی‘ جن میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عیسٰی نگری کے بشیر عالم بھٹی مسیح کے بیٹے،نوجوان فائٹر پائلٹ کامران بھٹی مسیح نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ گروپ کیپٹن کامران عالم بھٹی نے بھارت کے اندر گھس کر جس پیشہ ورانہ مہارت اور بے جگری سے دشمن کی ایئربیس اُڑائی، وہ سچی داستان ٹام کروز کی فلم ٹاپ گن میوورِک سے بڑھ کر ہے۔یقینا جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ یہ اعصاب کی جنگ ہے، اگر پاکستان نے اس میں فتح حاصل کی تو یہ جنگ بھی جیت جائے گا،،، اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان دبا نہیں اور ہندوستانی حملوں کا جواب موثر طریقے سے ادا ہو گیا ۔ اب دونوں اطراف رکنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اب کچھ کرتا ہے تو پاکستان مجبور ہو جائے گا کہ وہ بھی جواب دے اور پھر سب کچھ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اُس نہج تک دونوں ممالک کو نہیں پہنچنا چاہیے۔ پہلی پاک بھارت جنگوں میں مسئلہ توپوں اور ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں تک محدود ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں جنگوں کی نوعیت بدل چکی ہے۔ یوکرین میں ڈرون ٹیکنالوجی پر اکتفا کیا جا رہا ہے، پاکستان اور ہندوستان کے پاس تو ایٹمی صلاحیت ہے۔ ایٹمی ٹرگر پر کہیں انگلی لگی تو پھر سوچنا بھی خطرناک لگتا ہے کہ تباہی کیا ہو سکتی ہے۔
لہٰذااس کے بعد میرا اپنا خیال ہے کہ جواب در جواب کا عمل پورا ہو گیا۔ اب بات کو آگے بڑھنا نہیں چاہیے۔ ہندوستان نے پاکستان پر حملے کیے اور ہماری طرف سے اُنہیں ٹھیک جواب مل گیا۔ اب وِنگ کمانڈر وائیو میکا سنگھ کی بات مان لی جائے کہ ایسکلیشن کی طرف نہیں جانا چاہیے تو بہتر ہوگا۔ میزائلوں ‘ ڈرونوں اور اور لڑاکا طیاروں تک یہ بات رہے تو اچھا ہے نہیں تو دونوں ممالک کے پاس زیادہ خطرناک ہتھیار بھی موجود ہیں۔ خدا نہ کرے کہ نوبت وہاں تک پہنچے۔ کیونکہ وہاں تک بات گئی تو پیچھے کچھ نہ رہے گا۔تبھی ڈونلڈ ٹرمپ بھی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کردار ادا کرنے پر آگے آگے چل رہے ہیں۔
بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ جو ممالک کہتے تھے کہ پاک انڈیا اپنے مسائل خود حل کریں،،، اب وہ میدان عمل میں آکر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی پر مجبور ہو گئے ہیں اور ہونا بھی چاہیے،،، کیوں کہ جنگوں سے کبھی خوشحالی نہیں آئی،،، جنرل مشرف کے دور میں بھی دونوں افواج آمنے سامنے تھیں، کشیدگی بھی رہی مگر اُس وقت بارڈر پر دونوں آمنے سامنے تھیں، مگر اس کی جگہ جدید ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔۔۔ لہٰذااب اس خطے میں خوشحالی اُسی صورت آئے گی جب امن ہوگا، اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ صرف خوشحالی لے آئے اور امن نہ ہو،،، تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوگا۔ اور اب جبکہ پاکستان بظاہر جیت چکا ہے اور قومی خوشی کے شادیانے بجا رہی تو حکومت اور مقتدرہ کو بھی چاہیے کہ جب قوم ایک بار پھر اکٹھی ہوگئی ہے، تو اس کو اکٹھا رہنے دیں،،، اور عام معافی کا اعلان کردیں۔ خاص طور پر 9مئی کے اُن افراد کے لیے جو سیاسی طور پر قید ہیں۔ آپ یقین مانیں کہ دنیا بھر میں اس وقت ہمارے یکجا ہونے کا بہترین پیغام گیا ہے،،، پاکستان کی حالیہ جوابی کارروائی کے بعد تو وہ لوگ اور دانشور بھی ایک پیج پر آگئے اور اداروں کی تعریفیں کرنے لگے، جو کسی نہ کسی وجہ سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
لہٰذااس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اب آپ کو بھی چاہیے کہ آپ جنگ بھی جیت گئے ہیں،،، اور نفرت کے جو بیج بوئے گئے تھے، اُن کی آبیاری بھی ہو چکی ہے۔ تو ایسے میں ان لوگوں کو معاف کردیں گے،،، جنہوں نے غلطیاں کی ہیں۔۔۔ بلکہ مجھے بتایا جائے کہ غلطیوں سے آج پاک کون ہے؟ ماضی میں سب سے ہی غلطیاں ہوتی رہی ہیں،،، جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی نے غلطیاں کی ہیں۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیں کہ جنرل مشرف نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو انٹرویو میں بڑے فخر سے طالبان کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کا فائدہ پوری دنیا کو سمجھایا تھا۔ موصوف نے فرمایا کہ جب تورا بورا پر امریکیوں نے بمباری کی تو وہاں سے افغان طالبان بھاگ کر پاکستان کی طرف آئے۔ ہم سرحد بند کرنے کے بجائے انہیں اندر لے آئے اور محفوظ رکھا تاکہ کل کلاں کو جب امریکی افغانستان سے واپس جائیں گے تو وہ ہمارے کام آسکیں۔ آج وہی طالبان انڈیا کی خاطر افغانستان کی سرزمین سے ہمارے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم نے افغان طالبان لیڈران کو قطر میں امریکیوں سے ملوایا۔ آج ہم امریکہ کے منت ترلے کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کو کہیں کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملوں سے روکیں‘ وہی امریکی جو کبھی ہمیں کہتے تھے کہ آپ طالبان کو روکیں۔ بلکہ ہماری غلطیوں پر ہی ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ آپ جو سانپ اپنے گھر کے پچھواڑے میں پال کر خوش ہیں کہ یہ صرف آپ کے ہمسایوں کو ڈنک ماریں گے، تسلی رکھیں! وہ آپ کے گھر گھس کر آپ کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ آج وہی کچھ ہو رہا ہے۔اور پھرہیلری کلنٹن کو ہم نے دورہ پاکستان کے دوران طعنہ مارا تھا کہ امریکی اپنا کام نکلوا کر نکل جاتے ہیں اور مڑ کر پاکستان کو پوچھتے تک نہیں کہ کس حال میں ہو۔ اس پر ہیلری نے سیدھا جواب دیا تھا کہ اگر آپ کو وہ سب کام غلط لگ رہے تھے تو نہ کرتے۔ اگر کیے ہیں تو کون سا مفت میں کیے ہیں۔ سب کی ڈالروں میں قیمت لی بلکہ ایک کام کے دو دو‘ چار چار بل بنا کر چارج کیا۔ اگر ہم دوست تھے تو پھر ہم سے اس کا معاوضہ کیوں لے رہے تھے؟کیا یہ غلطیاں،،، غلطیاں نہیں تھیں؟لہٰذاانسان خطاءکاپتلا ہے، ہو جاتا ہے،،، کبھی کبھی زندگی میں غلط فیصلے بھی ہوجاتے ہیں،،، اس لیے عام معافی کا اعلان کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کریں۔ ایسا کرنے سے یقینا ملکی سیاست میں دوستانہ ماحول پیدا ہوگا،،، فوجی عدالتیں بھی ہمارے عوام کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ دہشت گردوں کے لیے ہونی چاہیے،، یہ کلبھوشن یادیو جیسے لوگوں کے لیے ہونی چاہیے۔
بہرکیف میں پھر یہی کہوں گا کہ اگر آپ کے خیال میں کسی نے زیادتی کی ہے تو اُس کے لیے عام معافی کا اعلان کریں،،، یہ نہ دیکھیں کہ کس نے جنگ کی حمایت کی ہے اور کس نے نہیں کی،،، بس ! جیت کو انجوائے کریں۔ کیوں کہ تاریخ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ عظیم لوگ جب جیت جاتے ہیں تو وہ اپنے مخالفین کو معاف کردیتے ہیں،،، وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو یاد نہیں کرتے،،، بلکہ آگے بڑھتے ہیں۔ آپ نیلسن منڈیلا کو دیکھ لیں،،، جس نے تین دہائیاں جیل کاٹنے کے بعد جب وہ صدر بنے تو اپنے تمام تر مخالفین کو معاف کر دیا۔ اور رہی بات بھارت کی تو ان جھڑپوں سے ہندوستان کو اتنا احساس تو ہو گیا ہوگا کہ دریاﺅں کے پانیوں کے ساتھ کھیلنا اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ چھوٹی سی باتوں پر اِتنا کچھ ہو گیا ہے تو کسی قسم کی آبی جارحیت کی جائے تو سوچا جاسکتا ہے کہ اُس کا ردِعمل کیا ہوگا۔ پاکستان کو بھی اپنے آبی ذخائر کا زیادہ احساس ہونا چاہیے۔ یہ جو چولستان کی نہروں کے بارے میں سوچا جا رہا تھا ایسے ڈراموں سے دور رہنا بہتر ہے۔ ملک کے وسیع تر تناظر کو بھی اب دیکھنے کی ضرورت ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں