مقتدر ادارے کو سپریم کورٹ سے ایک حد تک ریلیف مل گئی جب آئینی بنچ نے زیر حراست ان ملزموں کے فیصلے کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی جن کی سماعت فوجی عدالتوں میں مکمل ہو چکی تھی۔ عدالت نے 85افراد کے حوالے سے یہ حکم جاری کیا ساتھ ہی ہدایت کی کہ جن کو کم سزا کی وجہ سے رعائت مل سکتی ہے ان کو رعائت دے کر رہا کیا جا سکتا ہے تو رہا کر دیا جائے، آئینی بنچ انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کر رہی ہے، ماضی میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے حکم امتناعی جاری کر دیا گیا تھا کہ کسی سویلین کے خلاف تا حکم ثانی مقدمہ فوجی عدالت میں منتقل نہ کیا جائے اس سلسلے میں خدشات میں یہ بھی شامل تھا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ بھی فوجی عدالت میں بھیجا جا سکتا ہے۔ آئینی بنچ نے حالیہ سماعت کے دوران خواجہ حارث کے دلائل کی سماعت کے بعد یہ حکم جاری کر دیا اور قرار دیا کہ عدالت سماعت جاری رکھے گی اور تمام پہلوؤں پر غور کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔
اس وقت ملک کی سیاسی صورت حال استحکام کی طرف نہیں جا رہی اور کوئی نہ کوئی پھڈا ہوتا رہتا ہے، ابھی گزشتہ دو دنوں ہی کے دوران مذاکرات، مذاکرات کا شور اٹھا اور سکھ کا سانس آیا، لیکن ابھی یہ گونج ہی تھی کہ نئی صورت حال بن گئی اور فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف حالات خراب کرنے کے حوالے سے الزام تراشی شروع کر دی، اگرچہ فریقین اب بھی مفاہمت کے موقف کی حمائت کرتے ہیں لیکن عملی قدم نہیں اٹھاتے،یوں تاحال امید و بیم میں لٹکے ہوئے ہیں۔دوسری طرف اب 9مئی اور دیگر معاملات والے مقدمات میں پیش رفت ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کئی کیسوں میں فرد جرم عائد ہو گئی اور باقی منتظر ہیں ان میں بھی جاری ہوگی۔ اس حوالے سے بھی یہ وقت زیادہ بہتر اور سازگار ہے کہ رنجش میں مزید اضافے سے پہلے کوئی سلسلہ جنباتی شروع ہو جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ رویوں میں فرق آئے ہر کوئی اپنے موقف کی بات کرتا ہے تو کرے تاہم ضروری نہیں کہ یہ سب سخت بیانات اور اختلاف ہی سے ہو، الفاظ بہتر ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس حوالے سے خاموشی کے روزے ہی رکھ لئے جائیں، اس سلسلے میں میڈیا (خصوصاً الیکٹرونک +سوشل میڈیا) سے بھی اپیل ہے کہ ہتھ ہولا کرلیں کہ ملکی استحکام کا مسئلہ ہے اور اس کے لئے تمام فریقوں کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
میں مسلسل عرض کرتا چلا آ رہا ہوں کہ دنیا کے حالات پر بھی گہری نظر رکھی جائے، تاحال مسلم امہ بیانات کے سوا اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، اب جو حالات ہیں کیا ان کا تقاضا یہ نہیں کہ بیانات تک محدود نہ رہا جائے، صرف مذمت سے کچھ نہیں ہوگا اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور یہ بھی تبھی ممکن ہے کہ مسلم دنیا نہ صرف اپنے اپنے گھر کو سیدھا کرے بلکہ ممالک کے درمیان جو تحفظات ہیں ان کوبھی دور کیاجائے اور اتحاد کا صرف نام نہ لیا جائے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جائے۔ اسلامی کانفرنس کو مشترکہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ امریکہ پر دباؤبڑھایا جائے اور اگر عملی طور پر مظلومین کی مدد نہیں کی جا سکتی تو کم از کم معاشی اور اقتصادی میدان میں تو یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور کسی بہتر اور اچھے بائیکاٹ کا اعلان کیاجائے جن ممالک کے سفارتی تعلقات ہیں وہ ان کو معطل کریں اسلامی امہ کو اب اپنا آپ ثابت کرنا ہوگا۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم بہت سی عملی صورت حال میں بھی گرفتار ہیں، چین پر ہمارا انحصار بہت بڑھ گیا، روس سے تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ ایران سے برادرانہ تعلق جاری ہے۔ یوں بظاہر تاثر دوسرے بلاک سے بھی بہتر تعلقات کا ہے اور یہ امر امریکہ کو کھٹکتا ہے اور رہے گا، اگرچہ ہم اس قدر محتاط ہیں کہ ایران کے خلاف امریکی رویے کے پیش نظر گیس پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل نہیں کر پا رہے حتیٰ کہ ایران بہت رعائت بھی دے چکا اس سلسلے میں ہماری مجبوری بھی ہے کہ گیس کی قلت ہے ہم اس کو بیان کرکے بھی اس حد تک رعائت طلب کرسکتے ہیں، ہم آئی ایم ایف سے بندھے ہوئے ہیں اور یہ ادارہ امریکی ڈونرشپ کا محتاج ہے اور ہمارا سکریو بھی کستا رہتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو پاکستان مختلف بین الاقوامی مسائل میں بھی الجھا ہوا ہے حالات سازگار بھی ہیں اور احتیاط کا تقاضا بھی کرتے ہیں، اس لئے بھی ہمیں اندرونی امن و استحکام کی سخت ضرورت ہے جو ہمسایہ ممالک سے تعلقات کے ساتھ ساتھ اندرونی تعلق سے بھی جڑا ہوا ہے اگر ہم انپے گھر کو سیدھا کرلیں تو ان مسائل پر یکسو ہو کر توجہ دے سکتے ہیں اس لئے سب سیاسی عناصر کا فرض ہے کہ وہ ملکی بہبود اور مفاد پر اپنے سب مفادات قربان کردیں، سیاسی تعلقات بہتر بنائیں، یہ طے شدہ بات ہے کہ جب آپ کسی شرط کے بغیر میز پر بیٹھیں گے، مذاکرات کریں گے تو راستے بھی نکل آئیں گے۔ اندرونی استحکام دہشت گردی سے بھی مشروط ہو چکا ہے، ہمارے لئے یہ بھی لازم ہے کہ ہم افغانستان کی طالبان حکومت سے تعلقات زیادہ بہتر کریں اور مل جل کر دہشت گردی پر قابو پائیں کہ دنیا میں صرف یہ اندرونی دہشت گردی نہیں عالمی دہشت گردی بھی ہے، کیا اسرائیل اور بھارت دہشت گرد ملک نہیں ہیں؟ اگر اسلامی دنیا کے اپنے تعلقات مضبوط ہوں تو بھارت پر بھی دباؤ آ سکتا ہے جو اقتصادی ذرائع سے ممکن ہے،ہمارے خلیجی بھائی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں کہ بھارتی معیشت کا بہت بڑا حصہ ان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ان ممالک اور ایران کو بھی غور کرنا چاہیے اور حالات حاضرہ میں پلڑا کس طرف جھکنا چاہیے۔پاکستان گو اپنے محل وقوع سے فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور جدوجہد کررہا ہے تاہم یہ تنے ہوئے رسے پر چلنا ہے یہ بھی اندرونی اتحاد کا متقاضی ہے۔