حکومت سول نافرمانی تحریک کو ڈائیلاگ سے روکے!

اس دورِخاص میں جسے ماہرین ’’نیم جمہوری دور ‘‘ کہہ رہے ہیں، میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو دبانے کے لیے کوششیں جاری ہیں، لیکن وہ نہ تو دب رہے ہیں اور نہ ہی کوئی دباو قبول کر رہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس بھی احتجاج کے سو طریقے ہیں، جنہیں وہ ایک ایک کرکے آزما بھی رہی ہے، وہ ایک خاص حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے۔ اس دور میں اب وہ یہ طریقے نہ آزمائے تو کیا کرے؟ میدان کھلا چھوڑ دے؟ کہ آو اور جتنی مرضی دھاندلیاں کرو، مرضی کے منصف بھی لگا لو، آئینی ترامیم بھی مرضی کی اور آمرانہ قسم کی بنا لو، لہٰذاتمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔لہٰذاپی ٹی آئی نے اپنی جارحانہ تکنیک کو جاری رکھتے ہوئے ’’سول نافرمانی تحریک‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر واقعات کی عدالتی تحقیقات نہ کرائی گئیں تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی، جس کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے کا کہا جائے گا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سے قبل 2014 میں 126 دن کے دھرنے کے دوران بھی عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کر چکے اور کنٹینر پر کھڑے ہو کر انہوں نے بجلی کے بلوں کو آگ لگائی تھی۔ تاہم وہ اس وقت اتنی زیادہ کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن ماہرین کے مطابق اس مرتبہ اْن کی مقبولیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بتاتا چلوں کہ سول نافرمانی کی تحریک ہوتی کیا ہے؟ اور لوگ یا سیاسی جماعتیں اسے اختیار کیوں کرتے ہیں۔ دراصل سول نافرمانی احتجاج کا ایک پْرامن طریقہ ہے جس کے ذریعے حکومت سے اختلاف رکھنے والے لوگ حکومت کو ہر قسم کا ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسی مصنوعات اور ایسی خدمات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں جس سے سرکار کو فائدہ پہنچے۔ سول نافرمانی صرف ٹیکس نہ دینے کا نام نہیں بلکہ حکومتی قوانین کے برعکس کام کرنے کا بھی نام ہے جیسا کہ سرکار کی جانب سے جہاں اجتماع پر پابندی ہو وہاں احتجاج کرنا، شاہرائیں بند کرنے پر پابندی ہے تو شاہرائیں بند کرنا وغیرہ۔ یہ عمل اگر عوامی دائرہ کار میں وسیع تر ہو جائے تو اس سے حکومت کو مشکلات کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اگر حالیہ سول نافرمانی کی تحریک کا 10فیصد حصہ بھی کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ کم از کم ایک ہزار ارب روپے کے نقصان سے زیادہ ہوگا، کیوں کہ گزشتہ سال 33ارب ڈالر کے قریب بیرون ملک پاکستانیوں نے رقوم بھیجی ہیں، اگر اس میں سے 10فیصد نکال دیں تو یہ 3.3ارب ڈالر بنتا ہے، جو پاکستانی 1ہزار ارب روپے کے قریب ہے۔ اگر 10فیصد لوگ بجلی کے یا یوٹیلٹی بلز وغیرہ نہیں دیتے یا ٹیکس ادا نہیں کرتے تو اس کا بھی تخمینہ کھربوں میں لگایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں تو بجلی چوری ہی اتنی ہے کہ دو صوبے بلوچستان اور کے پی کے ویسے ہی بجلی کے بلوں سے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔ کے پی کے میں اعلانیہ بجلی چوری ہوتی ہے، جبکہ بلوچستان تو ویسے ہی ہمیں کچھ نہیں سمجھتا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بجلی کے بل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذاذاتی ’’انا‘‘ کو مسئلہ نہ بنائیں، اور انا چھوڑ کر، مہربانی فرما ئیںاور ڈائیلاگ شروع کریں۔ چلیں اگر حکومت سمجھتی ہے، کہ وہ پاکستانی کی ’’ترقی‘‘ میں مگن ہے تو اس کے لیے وہ حاضر اور ریٹائرڈ ججز یا اچھی شہرت رکھنے والے آفیسرز پر مشتمل ایک تھنک ٹینک بنا دے۔ جس کے لیے ایک قانون پاس کروا لیں کہ وہ جو لانگ ٹرم فیصلے کرے وہ حتمی تصور ہوں۔ پھر وہ تحریک انصاف کے حوالے سے بھی جو فیصلہ کرے اْسے من و عن مان لیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس ایسا ہرگز نہ کریں کہ آپ اپنی ذہنی تسکین کے لیے بتائیں کہ سب اچھا ہے۔ عوام کو معیشت، امن و امان اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے گمراہ نہ کریں۔ صحیح تصویر پیش کریں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہم اس وقت بربادی کی طرف جا رہے ہیں، ہم نے میڈیا پر پابندیاں لگا رکھی ہیں، تاکہ سب اچھا لگے، سوشل میڈیا کے ذریعے کہیں سے بہتر خبریں مل رہی تھیں، آپ نے اْس پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ بلکہ ساری انرجی صرف اس پر لگی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف کو کمزور کیسے کرنا ہے۔ بس کردیں۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ آج خیر سگالی کا اعلان کردیں، سبھی لبیک کہیں گے۔ آپ یہ اعلان کرتے ہوئے کم از کم اْن لوگوں کو رہا کردیں جن پر ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا مگر ابھی تک مقدمہ نہیں بن سکا۔ آپ نے یاسمین راشد یا اعجاز چوہدری یا سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ اور دیگر رہنماوں میں سے کیا نکالنا ہے؟ اْنہیں خیر سگالی کے جذبے کے طور پر رہا کر دینا چاہیے۔ ایسا کرنے سے حکومت کا ایک اچھا تاثر قائم ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز کی قربانی تحریک انصاف دے، سب کچھ وہی کرے، آپ کو کچھ نہ کہا جائے، آپکی ہر ناجائز بات کو جائز کہہ کر پیش کیا جائے اور اگلے چار سال بھی طشتری بنا کر پیش کر دیں، وہ اگلے چار سال تک آپ کو رگڑتے رہیں، رگڑتے رہیں، اور پھر آپ مزے سے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں اور سب چیزیں خود ٹھیک ہوجائیں۔ لہٰذاایسے نہیں ہوگا! جو کچھ ڈی چوک میں ہوا ، کیاوہ کافی نہیں ہے؟ اسی وجہ سے پوری دنیا میں ہم گندے ہو رہے ہیں، ہمیں ہر طرف سے گالیاں پڑ رہی ہیں، بین الاقوامی میڈیا ہم پر تھو تھو کر رہا ہے، لیکن ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اب فیصلے کرنے کے والے، ہوش میں آئیں اور ملکی مفاد میں بہترین فیصلے کریں۔ دنیا میں ہماری ویلیو ختم ہو کر رہ گئی ہے، ہمارا پاسپورٹ دنیا کے آخری پانچویں نمبر وں پر آتا ہے۔ ہم جھوٹ بولنے والے دس ملکوں کی فہرست میں بھی سب سے آگے ہیں، ہم انصاف کرنے والوں میں 144ویں نمبر پر ہیں، ہم تعلیم دینے والے ملکوں میں سے 132ویں نمبر پر ہیں،،، کرپشن کی رینکنگ میں ہمارا نمبر 130واں ہے، تیزترین انٹرنیٹ کی سہولت دینے والوں میں ہمارا نمبر 192واں ہے۔ مطلب ! ہماری ویلیو ہی دنیا میں ختم ہو کر رہ گئی ہے۔لہٰذاحکمران ہوش کے ناخن لیں، اور ایسی تحریک جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو، کو کامیاب ہونے سے بچائیں۔ مذاکرات شروع کریں تاکہ تصادم کی سیاست سے بچا جا سکے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی انتظار کر لیتے ہیں کیوں کہ سابق بیوروکریٹ اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے سفارتی ذرائع سے دعویٰ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریب حلف برداری میں عمران خان کو شرکت کی دعوت دیں گے،پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں