خواب اور ان کی تعبیر ہمیشہ سے انسانی دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ دنیا میں ہر شخص اچھے برے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ اچھا خواب طبیعت پر مثبت اثرات مرتب کرتا جبکہ برے خواب کی وجہ سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ طاری ہو جاتا ہے۔ خوابوں کے بارے میں لوگ اپنے علم اور تجربے کے لحاظ سے قیاس آرائیاں بھی کرتے ہیں۔ کتاب و سنت کا مطالعہ اس حوالے سے انسانوں کی بڑے خوبصورت انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ پر 23برس تک وحی آتی رہی اور اس سے قبل آپ کو چھ ماہ تک سچے خواب آتے رہے۔ آپ جو خواب دیکھتے وہ بیداری کے بعد اسی طرح پورا ہو جاتا۔ اس حقیقت کو صحیح بخاری میں نبی کریمﷺ کی پاک بیوی سیدہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ کو نبوت سے پہلے سچے خواب دکھائے جاتے تھے چنانچہ اس دور میں آپﷺ جو خواب بھی دیکھ لیتے وہ صبح کی روشنی کی طرح بیداری میں نمودار ہوتا۔ نبی کریمﷺ پر چونکہ 23برس تک وحی آئی اور چھ ماہ تک سچے خواب آئے‘ اس لیے خواب کو نبوت کا 45واں اور 46واں حصہ بھی کہا گیا ہے اور اس بات کی تصدیق احادیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح خوابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں؛(1) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے‘ انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ”(قیامت کا) زمانہ قریب آ جائے گا تو کسی مسلمان کا خواب جھوٹا نہ نکلے گا۔ تم میں سے ان کے خواب زیادہ سچے ہوں گے جو بات میں زیادہ سچے ہوں گے۔ مسلمان کا خوابِ نبوت کے 45حصوں میں سے ایک (45واں) حصہ ہے۔ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: اچھا خواب اللہ کی طرف سے خوشخبری ہوتی ہے‘ ایک خواب شیطان کی طرف سے غمگین کرنے کیلئے ہوتا ہے اور ایک خواب وہ جس میں انسان خود اپنے آپ سے بات کرتا ہے (اس کے اپنے تخیل کی کار فرمائی ہوتی ہے)‘ اگر تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کھڑا ہو جائے اور نماز پڑھے اور لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتائے‘‘۔(2) جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا! ”جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے‘ ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی‘ مسلمان کا خواب نبوت کا 46واں حصہ ہے۔ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں‘ بہتر اور اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں‘ کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں‘ لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو کھڑا ہو کر تھوکے اور اسے لوگوں سے نہ بیان کرے‘‘۔
کتاب و سنت کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ خواب اللہ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کیلئے بشارت اور حکم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کے خواب کا ذکر کیا جس میں ان کو یہ بات دکھلائی گئی کہ آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے گلے پہ چھری کو چلا رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دکھلائے گئے اس خواب پر پورے شرح صدر سے عمل کرنے کیلئے تیار ہو گئے۔ اس واقعے کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الصافات کی آیات 99تا 105میں یوں فرماتے ہیں ”اور اس (ابراہیمؑ) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں۔ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب! مجھے (بیٹا) عطا کر جو صالحین میں سے ہو۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیمؑ) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوسفؑ کے بھی اس خواب کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنے بابا یعقوبؑ کو بتلایا اور بعد ازاں یہ خواب اللہ تبارک و تعالیٰ نے پورا بھی فرما دیا۔ سورۃ یوسف کی آیت نمبر چار میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”جب کہ یوسفؑ نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے 11ستاروں کو اور سورج چاندکو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں‘‘۔ اس کو خواب کو سننے کے بعد حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹے جناب یوسفؑ کو جوکہا اُس کا ذکرسورۃ یوسف کی آیت نمبر پانچ میں کچھ یوں کیا گیا ہے: ”یعقوبؑ نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں‘ شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اگر اچھا خواب آئے تو اس کو حسد کرنے والوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ فتح میں نبی کریمﷺ کے ایک ایسے خواب کا ذکر کیا جس میں آپ نے اپنے آپ کو صحابہ کرام کے ہمراہ بیت اللہ الحرام میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اللہ نے اس خواب کو پورا فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ فتح کی آیت نمبر 27میں ارشاد فرماتے ہیں ”یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خواب سچا دکھایا کہ ان شاء اللہ تم یقینا پورے امن و امان کیساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے‘ سرمنڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر‘ وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے‘ پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی‘‘۔
قرآن مجید میں جہاں انبیا کے خوابوں کا ذکر ہے وہیں سورۃ یوسف میں ایک بادشاہ کے خواب کا بھی ذکر ہے جس میں مستقبل کے معاشی حالات کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اور اس کی درست تعبیر حضرت یوسفؑ کے سوا کوئی نہ کر سکتا تھا۔ حضرت یوسفؑ کی درست تعبیر کی وجہ سے بادشاہ اتنا خوش ہوا کہ اس نے آپ کو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کرنے کی پیشکش کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں عزیز مصر بن گئے۔ آپ نے اپنے علم اور دور اندیشی کے ساتھ عالمی قحط کا بڑے خوبصورت انداز میں مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔
احادیثِ مبارکہ میں نبی کریمﷺ کے خوابوں کا ذکر بھی ملتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ صحابہ کرام آپ کے سامنے اپنے خواب رکھا کرتے اور آپ ان کی بڑے خوبصورت انداز میں تعبیر فرماتے۔ کتب احادیث میں استخارہ کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ کئی مرتبہ استخارہ کرنے کے بعد بھی انسان کو اس امر سے متعلق خواب آتا ہے جس کے بارے میں اس نے استخارہ کیا ہوتا ہے اور یوں اس کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ خوابوں کے حوالے سے کتب احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو مذاق یا نمود و نمائش کیلئے جھوٹے خواب بیان نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کو شدید ناپسند ہے۔ اس حوالے سے سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جس نے جھوٹا خواب بیان کیا اسے جو کے دو دانوں کو ایک دوسرے سے گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور (وہ ایسا نہیں کر سکے گا‘ چنانچہ) اسے اس وجہ سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں زندگی کے جملہ معاملات کے حوالے سے کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق دے‘ آمین!