خیبرپختونخوا کی اپیکس کمیٹی کا کُرم میں فریقین سے اسلحہ لینے کا متفقہ فیصلہ

خیبرپختونخوا کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ضلع کُرم میں قیام امن کیلئےفریقین سے اسلحہ لیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔

جاری اعلامیے کے مطابق علی امین گنڈاپور نے پشاور میں خیبرپختونخوا کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا اختر حیات گنڈاپور کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے بھی شرکت کی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں ضلع کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے طویل مشاورت کے بعد لائحہ عمل کو حتمی شکل دے دی گئی۔

اس کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کرم کے دونوں فریقین سے اسلحہ جمع کیا جائےگا، دونوں فریقین تمام اسلحہ جمع کرائیں گے جس کے لیے فریقین حکومت کی ثالثی میں آپس میں ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مطالبہ کیا کہ صوبے میں امن و امان کے لیے وفاقی حکومت اقدامات اُٹھائے۔

اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ملک بھر میں امن امان برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، ہر سطح پر امن یقینی بنانے کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں گے، اجلاس میں چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس خیبرپختونخوا اور عسکری حکام نے بریفنگ دی۔

قبل ازیں، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ملاقات کرکے صوبے میں قیام امن کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔

وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایوان وزیر اعلیٰ آمد پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا خیر مقدم کیا، دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور کرم میں قیام امن کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادکار بڑھانے میں پورا تعاون کریں گے، کرم میں قیام امن اولین ترجیح ہے۔

واضح رہے کہ ضلع کرم میں کئی دن تک جاری مسلح تصادم کے نتیجے میں 130 اموات کے بعد سیاسی جرگے کی مداخلت سے علاقے میں مکمل جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر اتفاق رائے کے بعد کرم میں معمولات زندگی بحال ہوگئے تھے۔اس کے علاوہ مسلح تصادم کے نتیجے میں بند کی جانے والی موبائل فون سروس بھی بحال ہوگئی تھی۔

21 نومبر کو ضلع کرم کے علاقے اپر دیر میں اسی ہائی وے پر ایک گروپ کی جانب سے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کرکے مسلح فسادات کی ابتدا کی تھی، جس کے بعد سے ہائی وے کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد دونوں فریقین کے درمیان فائرنگ کا یہ سلسلہ جاری رہا، پہلے دن دونوں اطراف سے فائرنگ کے نتیجے میں مجموعی طور پر 43 افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ اس کے بعد مسلح تصادم میں مزید کئی افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں