دنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ

نکولا سمتھ(ٹیکنالوجی رپورٹر)رواں ماہ کے آخر میں دنیا کا سب سے پہلے سائبر قحبہ خانہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں خدمات فراہم کرنے کا آغاز کرے گا جن کے تحت صارفین مصنوعی ذہانت کی حامل سیکس کی گڑیا کے ساتھ وقت بتا سکیں گے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار ان ’سیکس ڈولز‘ کے ساتھ صارفین صرف بات چیت ہی نہیں بلکہ جسمانی تعلق بھی قائم کر سکیں گے۔اپنی نوعیت کے پہلے ’سائبر بروتھل‘ نامی اس قحبہ خانہ کے بانی اور مالک فلپ فزینیگر کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ایک مشین کو نجی معاملات کے لیے استعمال کرنے میں زیادہ آرامدہ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ وہ ان کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتی۔ان کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے ایسی ڈول یا گڑیا میں کافی دلچسپی تھی جو آواز نکال سکتی تھیں اور صارفین ان کی آواز سن سکتے تھے۔ لیکن اب مصنوعی ذہانت کی مدد سے رابطے کی زیادہ مانگ ہے۔‘
یہ بالغوں کے لیے تفریح فراہم کرنے والے کاروبار یعنی پورن انڈسٹری میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بیشتر طریقوں میں سے ایک ہے۔ سپلٹ میٹرکس کے تجزیے کے مطابق گوگل پلے سٹور میں موجود اے آئی ساتھی کی ایپس کو 22 کروڑ 50 لاکھ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔
سپلٹ میٹرکس کے جنرل مینیجر تھومس کریبرنیگ کا کہنا ہے کہ ’میری توقع ہے کہ اس رجحان کو مذید ڈویلیپر دیکھیں گے اور اس میں جدت لا کر پیسہ کمائیں گے۔‘

میشا رائیکوو موزیلا پرائیوسی کے محقق ہیں جن کا کہنا ہے کہ اے آئی ساتھی ایک منافع بخش کام ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ دیکھتے ہوئے کہ زیادہ تر چیٹ بوٹس فیس وصول کر رہے ہیں، اور بنیادی ٹیکنالوجی کو کہیں اور تیار کیا گیا ہے یہ ایک منافع بخش کاروبار کی طرح لگتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایپس ذاتی ڈیٹا جمع کرتی ہیں اور اکثر اسے تیسرے فریق جیسے اشتہار دہندگان کے ساتھ شیئر کرتی ہیں، یہ ایک آزمودہ اور حقیقی کاروباری ماڈل ہے۔‘
تاہم اے آئی اور بالغوں کی تفریح کے کاروبار میں ہونے والے ملاپ نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ایک مسئلہ ’جنریٹیو اے آئی‘ میں موجود تعصب کا ہے جو اسی ڈیٹا کی بنیاد پر مواد بناتا ہے جس کی اسے تربیت دی گئی ہے۔
ڈاکٹر کیری مکلنیرنی کیمبرج یونیورسٹی کے لیورہیولم سینٹر فار فیوچر انٹیلیجنس میں محقق ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ سیکس اور جنسی لذت سے جڑے امتیازی صنفی تصورات سیکس چیٹ بوٹس کے کوڈ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ سیکس چیٹ بوٹس کی تربیت کے لیے کس قسم کا ڈیٹا استعمال کیا جا رہا ہے ورنہ ہم ان تصورات کو دہرا رہے ہوں گے جن کے تحت خواتین کی جنسی لذت کو کم تر گردانا جاتا ہے اور مرد اور عورت کے روایتی جنسی تعلق سے ہٹ کر باقی تعلقات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘
میشا رائیکوو ایک اور خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس تنہا لوگوں خصوصا مردوں کو نشانہ بناتی ہیں۔’ہم نے جن چیٹ بوٹس کا جائزہ لیا، ان سے صارفین کو خصوصا ذہنی صحت کا سامنا کرنے والوں کو نقصان ہو سکتا ہے اور صارفین ان کے عادی ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد چیٹ بوٹس کے بارے میں تنبیہ کی ہے کیوں کہ ان سے جڑے پرتشدد اور کم عمر تعلقات کے مسائل سامنے آئے تھے۔
ایک اور مسئلہ پرائیویسی کا بھی ہے۔ پارٹنر شپ چیٹ بوٹس کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی حد تک نجی ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں۔میشا کا کہنا ہے کہ ’موزیلا نے جن ایپس کا جائزہ لیا، ان میں سے 90 فیصد شاید نجی ڈیٹا شیئر کریں یا بیچ دیں جبکہ نصف کے قریب ایپس صارفین کو نجی ڈیٹا ضائع کرنے نہیں دیتیں۔تاہم ایک اور خطرہ اصلی دنیا کے انسانی تعلقات کے متاثر ہونے کا بھی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں