دوستوں کی اچھی محفل اور عظمیٰ بخاری کی دعوت!

لکھنے اور بولنے والوں کے لئے سب سے آسان کام تنقید اور نقطہء چینی ہے اکثر حضرات اپنے دل کے پھپھولے دوسروں کے خلاف الزام تراشی یا ان کے کام میں کیڑے نکال کر پھوڑتے ہیں کہ تعمیری بات ذرا مشکل محسوس ہوتی ہے کہ اس کے لئے دل کو بھی پوچھنا پڑتا ہے اسی طرح پارلیمانی نظام حکومت میں تجربہ ہوا کہ مخالفت کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کے دل میں جو آئے وہ منہ سے نکال دیں، اسی لئے حزب اختلاف کا کام آسان ہوتا ہے لیکن اگر ایوان کی کارروائی میں سنجیدگی سے حصہ لینا ہو تو پھر اس کے لئے پڑھنا اور جاننا بھی ضروری ہے کہ ایوان میں کہی گئی بات وزن رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں حزب اقتدار والوں کا کام ذرا مشکل ہوتا ہے کہ ان کو ہر اعتراض کا جواب دینا ہوتا ہے اور اس کے لئے تیاری کر کے آنا پڑتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایوان میں شرمندگی ہوتی ہے،بہرحال اس سب کے باوجود ایوان میں مسائل پر بات ہونا ہی مفید تر عمل ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہو نہیں پا رہا اور ایوان میں شور ہنگامے کے بعد باہر موجود الیکٹرونک / پرنٹ میڈیا کے ذریعے دل کا غبار نکالا جاتا ہے اسی ماحول کی وجہ سے ان دنوں حزب اختلاف کی جماعتیں خصوصاً تحریک انصاف کے راہنما میڈیا سے الگ الگ گفتگو کرتے اور بھڑاس نکالتے ہیں کہ اکیلے بولنے کی وجہ سے کوئی ٹوکنے والا نہیں ہوتا اور اگر میڈیا کی طرف سے کوئی مشکل سوال کرلیا جائے تو کہا جاتا ہے آپ یہ سوال واپس لیں آپ کو ایسا سوال پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں عمر ایوب مثال ہیں کہ ان کے دادا جان کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو وہ ناراض ہو گئے، حالانکہ بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکی سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ معطلی اور کشمیریوں کے خلاف تازہ کارروائیوں کے حوالے سے محترم فیلڈ مارشل (خود ساختہ) جنرل محمد ایوب خان اور ان کے کارنامے ہی متعلقہ حقیقت ہیں کہ بھارت سے 1965ء کی بڑی جنگ اور معاہدہ تاشقند بھی انہی کے دور کے واقعات ہیں جبکہ سندھ طاس معاہدہ بھی انہی نے کیا اس لئے اگر ان کے بارے میں سوال پر پوتے ناراض ہوتے ہیں تو وہ محترم آصف نواز جنجوعہ کے بھائی شجاع جنجوعہ کی کتاب (Cross Swords) نیام تلواریں پڑھ لیں تو ان کی تسلی ہو جائے گی۔ یوں بھی ہم جیسی عمر کے صحافی اور پاکستانی ان کے دور کے بارے میں بہت جانتے ہیں اور 22خاندانوں کا چرچا بھی ان کے دور کا ہے اور خود فیلڈ مارشل کے قریبی رشتہ دار (سمدھی) کی صنعت کاری منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

بات کچھ کرنا تھی دور نکل گئی، آج کے دور میں اعتراض اور الزامات کے حوالے سے سوشل میڈیا کی بھی دھوم ہے اور یہاں پگڑیاں اچھلتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس ماحول میں صحافیوں کا کام یقینا بہت مشکل ہے تو حکمران اتحاد اور جماعت کو بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے اور ان کو مجبوراً جواب دینا پڑتا ہے جس کیلئے اب توہر صوبائی حکومت نے ترجمان مقرر کررکھے ہیں حالانکہ اطلاعات کا شعبہ ہوتا ہی اس مقصد کیلئے ہے اگرچہ میرے نزدیک اس شعبہ یا محکمہ کا بنیادی فرض عوام کو حقائق سے آگاہ رکھنا ہے لیکن حالات کا تقاضا اور مجبوری ہے کہ کابینہ کے وزیراطلاعات اب الزامات کا جواب دینے پر مجبور ہیں اور ان کو ہر روز میڈیا سے بات کرنا پڑتی ہے۔ پنجاب کی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری ہیں جو خود ایک وکیل اور سابق جج ہائی کورٹ کی صاحبزادی ہوتے ہوئے سرگرم سیاسی کارکن ہیں، ان کو جواب دینا ہوتا ہے اور وہ اس معاملے میں بہت سمارٹ ہیں بلکہ نجم ولی خان نے تو ان کو ”شیرنی“ کہہ دیا ہے، یہ کچھ غلط بھی نہیں کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے، میرا تعلق ان کے والد کے بعد خود ان کے حوالے سے بھی ہے وہ میری بیٹیوں برابر ہیں اور ایسے عزت بھی کرتی ہیں، جب ان کی طرف سے برادرم سہیل جنجوعہ نے عشائیہ پر مدعو کیا کہ یہ تقریب لاہور کے ان پانچ صحافی حضرات کے اعزاز میں تھی جن کو یوم پاکستان پر اعزازات سے نوازا گیا، ان میں میرے بھائی سلمان غنی ہیں تو کامران شاہد کے ساتھ نصراللہ ملک بھی شامل ہیں،میں نے عرض کیا تھا کہ تنقید کیلئے کسی جواز اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تو اس بار جو اعزازات دیئے گئے وہ تنقید کا باعث بنے اور خود ہمارے صحافی دوستوں نے بڑی باتیں کیں اور سوشل میڈیا تو ہے ہی بے لگام، ایسے میں سلمان غنی نے فیس بک پر مسکت جواب دیا تھا۔

عظمیٰ بخاری کی دعوت اور سلمان غنی کا اعزاز مجھے بھی اس محفل عشائیہ میں لے گیا۔ حالانکہ میں زیادہ تر گوشہ نشینی کی زندگی اور اپنے پیشہ ورانہ صحافتی امور میں مصروف رہ کر باقی وقت گھر پر گزارتا ہوں، اس محفل میں جانے کا فائدہ یہ بھی تھا کہ اپنے دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہو جائے، چنانچہ جب ہوٹل پہنچا تو محترم مجیب الرحمن شامی، نوید اقبال چودھری، میاں حبیب، پرویز بشیر اور کامران شاہد کے علاوہ کئی اور حضرات بھی تھے تاہم خود مہمان موجود نہیں تھے، ان کا انتظار تھا، اس عرصہ میں شامی صاحب اور کامران شاہد کے ساتھ دوسرے حضرات نے محفل کو گرمائے رکھا، عظمیٰ برابر کی شریک تھیں اور قہقہے گونج رہے تھے، نو بجے کے بعد جب مہمانوں کی آمد ہوئی تو معلوم ہوا کہ دعوت کا وقت اور ان کے پرائم ٹائم پروگرام کا وقت ایک تھا اور وہ یہ فرض ادا کرکے آئے ان کے ساتھ محترم نیازی صاحب بھی آئے اور ایک بار پھر سے ہلکی پھلکی گفتگو اور بعد میں خطاب ہو گیا، عظمیٰ نے جہاں انعام یافتہ حضرات کی پذیرائی کی وہاں انہوں نے یہاں بھی یقین دلایا کہ پنجاب حکومت صحافیوں کے حقوق کیلئے سربکف رہے گی۔

میں نے عرض کیا تھا کہ سلمان غنی کا جواب مجھے پسند آیا تھا، یہاں بھی انہوں نے دہرا دیا کہ محنت انسان نے کرنا اور عزت و ذلت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے،انہوں نے معترض حضرات کے اعتراضات کا جواب اسی حد تک دیا، یوں یہ محفل خوشی خوشی اختتام کو پہنچی، مجھے یہ دیکھ کر زیادہ اطمینان ہوا کہ عظمیٰ نے اس عرصے میں میڈیا سے اپنے تعلقات خوشگوار اور بے تکلفانہ استوار کرلئے اور یہ ان کی اضافی خوبی بن گئی ہے جس سے ان کو اپنے فرائض نبھانے میں بہت سہولت ہوتی ہے، بات مکمل کرنے سے پہلے عرض کروں کہ محترم شامی صاحب نے عظمیٰ کی گفتگو کے دوران کہا چودھری خادم آپ پر کالم لکھ دیں گے، تو عرض یہ ہے کہ لکھ تو دیا تاہم میں عظمیٰ سے یہ نہ کہہ سکوں گا کہ میں نے کالم لکھا تھا، کیا انہوں نے پڑھا؟

اپنا تبصرہ لکھیں