دھواں بھرا یہ شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

ہماری پنجاب حکومت سارا سال خواب خرگوش میں مست رہی، اب جب پانی سر سے بلند ہو چکا ہے تو ایس او پیز کا اعلان ہو رہا ہے،جرمانے کئے جا رہے ہیں،راقم انہی سطور میں بار بار یاد دہانی کراتا رہا اور مجسٹریسی نظام کی اہمیت بارے آگہی دیتا رہا مگر کسی نے نہ سنی مگر اب سموگ کے روگ نے لاہور،ملتان،فیصل آباد،گوجرانوالہ کو اپنی جکڑ میں لے لیا ہے تو حکومت کو مجسٹریسی نظام کی بحالی کی فکر ہو رہی ہے، با اثر مالکان کے بھٹہ خشت بھی فضا آلودہ کر رہے ہیں فصلوں کی باقیات،نائلون،ربڑ،ٹائر،استعمال شدہ گندہ موبل آئل جلایا جا رہا ہے جس سے نکلنے والا کثیف دھواں سانس لینا دو بھر کر رہا ہے۔جب تک سموگ نے لاہور کو نرغے میں لے رکھا تھا کہا جاتا تھا بھارت سے آنے والی آلودہ ہوا سے فضا خراب ہو رہی ہے،اپنی کوتاہ اندیشی پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ عذر لنگ تواتر سے پیش کیا جاتا رہا مگر سوال یہ کہ فیصل آباد اور ملتان میں بھارتی ہوا تو نہیں آئی وہاں حالات کیوں بگڑے؟

ہماری سیاسی فضا میں بھی سموگ نما تکدر ہے،جس کی وجہ سے سیاسی کشیدگی عروج پر ہے،گورنر پنجاب فرما رہے ہیں کہ پنجاب حکومت سموگ سے بچاؤ کے لئے کچھ نہیں کر رہی،پنجاب حکومت،پنجاب سے باہر اپنا علاج کرانے میں مصروف ہے،اب بندہ بیمار بھی تو ہو سکتا ہے۔

سیاسی نباض جانتے ہیں کہ سیاسی پارہ اپنی انتہا کو چھو رہا ہے، اس صورتحال کا بروقت حل نہ نکالا گیا،سیاستدانوں نے اپنی روش درست نہ کی،ایک سیاسی جماعت کیخلاف دو سال سے جاری انتقامی کارروائی نہ روکی گئی، ذاتی،سیاسی،گروہی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی،انتظامیہ کوبا اختیار بنا کر متحرک اور فعال نہ کیا گیا،سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنانے کی روش ترک نہ کی گئی تو یہ دور ایک کیلئے مصیبت اور اذیت ہے تو آنے والا دور کسی اور کیلئے عذاب بن سکتا ہے،اور یہ روش بر قرار رہی تو کسی کی سیاست بچے گی نہ اقتدا رہے گا،بلکہ ”اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی“کے مصداق بہت سے عزت داررلتے پھریں گے۔ابھی بھی بکھرے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا،ورنہ فضا پر چھائی سموگ کی چادر کبھی بھی زمین اور زمین والوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے،حالات ٹھیک کرنے کا بہت مختصر نسخہ صدیوں قبل سیانوں نے بتا دیا تھا”جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ڈنکا باجے“تو جس کا جو کام ہے اسے کرنے دیں،عدلیہ عدل کرے،حکومت پالیسیاں بنائے،مقننہ قانون سازی کرے اور انتظامیہ حکومتی پالیسیوں پر آزادنہ اور بلا امتیاز عمل درآمد کرائے۔

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ عزوجل نے نوع انسانی کو جو موسم ودیعت کئے ہیں وہ خطے کی آب و ہوآ کے مطابق انسانی ضرورت کیلئے انتہائی اہم تھے،یہ حضرت انسان کی اپنی کوتا ہ بینی اور عاقبت نا اندیشی ہے جس کے باعث ان موسموں میں پائے جانے والے منفی اثرات نمایاں ہو کر سامنے آرہے ہیں اور موسموں کی فطری جولانی اور کشش معدوم ہوتی جا رہی ہے،جنوب ایشیائی ممالک آج کل سموگ کی لپیٹ میں ہیں،جو دھند کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں،جیسے ہم نے پانی کو آلودہ کیا،نظریات میں بدعات کو اپنایا ایسے ہی فضائی آلودگی کیلئے بھی ہم پوری تندہی سے کوشاں رہے جس کے باعث جاتی گرمی اور آتے جاڑے کی موسمی دلکشی فوگ نے نگل لی اور ہمارے دامن میں بچ رہے فوگ سے پیدا شدہ امراض اور مسائل،سموگ کیا؟قومی سیاست کو بھی ہم نادانوں کی طرح انارکی اور خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں،فضائی آلودگی تو گل کھلا چکی مگر سیاسی فضا ء پر چھائی آلودگی کسی بھی وقت کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے۔

سموگ کیا ہے؟موسمی تبدیلی کے دوران سردیوں میں بادل رات کے وقت زمین کی سطح پر آ جاتے ہیں اور عام طور پر سورج نکلنے کے بعد اس کی تپش سے غائب ہو جاتے ہیں جسے ہم دھند کہتے ہیں،آج جس دھند کا سامنا ہم کر رہے ہیں یہ فوگ نہیں سموگ ہے،سموگ پیلی یا کالی دھند کا نام ہے جو فضا میں آلودگی سے بنتی ہے،صنعتوں،گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ SO2,ناٹئڑوجن آکسائیڈ NO کے بڑی مقدار میں ذرات بھی ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب سورج کی کرنیں ان گیس اور ذرات پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کر دیتے ہیں،اِس کے علاوہ جب سردیوں میں ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے تو دھواں اور دھند جمنے لگتے ہیں تو نتیجہ سموگ کی شکل میں نکلتا ہے، سموگ دمہ یعنی سانس لینے میں دشواری،آنکھوں میں جلن،گلے میں خارش،نزلہ،زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا باعث بنتی ہے،صنعتوں اور گاڑیوں کے دھواں کا مناسب بندوبست اور کوڑا کرکٹ جلانے کی حوصلہ شکنی اور تعمیراتی کام والی جگہ پر پانی کا چھڑکاؤکر کے سموگ پر قابو پایا جا سکتا ہے،دنیا کے کافی ممالک میں مصنوعی بارش برسا کے سموگ پر قابو پایا جاتا ہے۔

سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرتی ہے،سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے،یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوتا ہے جو ہوا میں جم سا جاتا ہے، دھوئیں اور دھند کے اس مرکب میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے۔

تخلیق کائنات کے بعد رب تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو کئی قسم کے عذاب سے دوچار کیا،کئی قومیں صفحہ ہستی سے مٹا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی گئیں،یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی قوم پر اس لئے عذاب نہیں آیا کہ وہ نماز روزہ میں کوتاہی کرتی تھی،مگر جس اجتماعی فعل سے مخلوق خدا اذیت میں مبتلاہوتی اس کی پکڑ ضرور کی جاتی،یہ بات کہتے شرم آتی ہے کہ جن کو ہم کافر اور جہنمی کہتے ہیں انہوں نے اپنی قوم اور نوع انسانی کو کسی دلدل،آبی،فضائی آلودگی میں دھکیلنے کے بجائے ایسے عذابوں سے بچنے کیلئے پیش بندی کی اور اجتماعی کوشش بروئے کار لا کر نہ صر ف اپنا زیر زمیں بلکہ زمیں کے اوپر موجود پانی کے ذخائر کی حفاظت کی۔

سموگ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے سینئر صحافی اور شاعر شہباز انور خان کے چند اشعار:

دھوئیں بھرا یہ شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

ساری فضا میں زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

گیسیں ہیں ہر طرح کی یہاں زیر آسماں

گویا خدا کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

دن کو بھی اب تو رات کا ہونے لگے گماں

ہر پہر شب کا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں وہ چبھن ہے کہ دکھتا نہیں ہے کچھ

اشک روں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اپنا تبصرہ لکھیں