بعض اوقات رنج وغم کی انتہائی کیفیتوں کو بیان کرنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے ۔ ہماری قومی سیاست کی تاریخ میں وہ لمحہ بھی کچھ ا یسا ہی تھاجب 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کےہسپتال کے باہر بینظیربھٹو کی المناک موت کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت باہر کھڑے ہجوم میں سناٹا سا طاری ہوگیا تھا، وہاں مجمع میں شامل لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں کے توازن بگڑ گئے۔بعد میں سسکیاں آہ وبکااورچیخیں بلند آوازنوحوں میں تبدیل ہوگئیں ،کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ شدت غم کا اظہار کس طرح کرے، لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پر سر رکھ کردھاڑیں مارمار کر زاروقطار رو رہے تھے۔ان کے سامنے ایک اور بھٹو دہشت گردوں کی پرتشدد کاروائی کا ہدف بن کر موت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی حکومت نے پھانسی دے دی تھی۔بینظیر کے ایک بھائی شاہنوازکی موت زہر سے ہوئی اور دوسرے بھائی مرتضی بھٹوکوایک نام نہادپولیس مقابلے کے بہانے سرعام قتل کردیاگیاتھا۔
کئی سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعدپاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینےکےلئے18 اکتوبر2007 کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں نے اپوزیشن کو صدر پرویز مشرف کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ وطن واپسی پرکراچی میں ا نہوں نے اپنے استقبال کیلئےآنے والےلاکھوں عوام کی ریلی کی قیادت کی تھی جس پر دہشت گردوں نے بم دھماکوں سے حملہ کرکے ان کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔اس حملے میں وہ محفوظ رہیں لیکن ان کےسینکڑوں جانثار جیالے کارکن شہید ہو گئے ۔
کراچی میں عوام کی ریلی پراس قاتلانہ حملے کے باوجود انہوں اپنا سیاسی سفر جاری ر کھا۔ لیکن اس حملے کے بعدان کی جان لینےکیلئے 27 دسمبر کو راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسے کے بعددہشت گردوں کی جانب سے انہیں ٹارگٹ کرکے ایک اورحملہ ہوا کیا گیا ۔یہ حملہ اسقدر بھرپور تھاکہ جس میں بےنظیر سمیت 24 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔ حملہ اس وقت ہوا جب بےنظیر بھٹو جلسہ گاہ سے نکلنے کے لیے اپنی بلٹ پروف لینڈ کروزر میں سوار ہوئیں ۔ اسی دوران لوگوں نے ’جئے بھٹو‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ کارکنوں کی محبت اور نعروں کا جواب دینے کے لیے بےنظیر کی گاڑی کی چھت کا ہنگامی راستہ کھولا گیا جہاں سے سر نکال کر انھوں نے نعروں کا جواب دینا شروع کیا۔ اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک کارکن گاڑی پر چڑھ گیا اور بینظیر بھٹو کو چھونے کی کوشش کی، جس کو محافظوں نے زبردستی اُتارا۔اسی اسی لمحے ایک دوسراشخص گاڑی کی طرف بڑھنے لگا ، اوربینظیر کی لینڈ کروزر کے نہایت قریب آ گیا۔ جہاں سے اس نےبینظیر کا نشانہ لے کر یکے بعد دیگرے تین فائر کیے، تیسری گولی فائر کیے جانے ساتھ ہی بے نظیربھٹو زخمی ہوکرپتھر کی طرح نیچے اپنی گاڑی کی سیٹ پر گر پڑیں۔ناہید خان جو بینظیر کے دائیں طرف بیٹھی تھیں، وہ بتاتی ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے تین گولیوں کی آواز سنی، بے نظیر نیچے گریں اور ان کے سر کا دایاں حصہ ان کی گود میںآن گرا۔ ان کے سر اور کان سے تیزی سے خون بہہ رہا تھا اور ان کے خون سے میرے سارے کپڑے تر ہوگئے۔ مخدوم امین فہیم جو بے نظیر کے بائیں طرف بیٹھے تھے انھوں نے بتایا کہ جب بینظیر گریں تو ان کے جسم میں زندگی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ان کی گاڑی میں کسی اور کو کوئی شدید چوٹ نہیں آئی۔گولیاں فائرکرنےکے بعدجونہی بینظیر نیچے گریں،دوسرے ہی لمحے حملہ آور نےاپنے بازو پر بٹن دبایااورخودکش بم بھی پھوڑ دیا، نارنجی رنگ کےشعلے کے ساتھ ایک خوفناک بم دھماکہ ہوا اور ہرطرف سیاہ دھواں پھیل گیا۔ دھماکے کی وجہ سے بے نظیر کی لینڈ کروزر کے چاروں ٹائر پھٹ گئے تھے۔تاہم ڈرائیورگاڑی کو لوہے کی رم پر چلاتے ہوئے اسے راولپنڈی جنرل ہسپتال کی طرف لے گیا۔ لیکن کچھ کلومیٹر تک چلتے ہوئے ایک جگہ جب لینڈ کروزر نے یو ٹرن لینا چاہا تو وہ رک گئی اور آگے نہیں بڑھ سکی۔ناہید خان کہتی ہیں کہ چند لمحوں بعد ایک جیپ آ کر رکی۔ ہم بے نظیر کو اس جیپ میں ہسپتال لے گئے۔ وہ جیپ بے نظیر کی ترجمان شیریں رحمان کی تھی۔ ہمسب لوگ حملے کے 34 منٹ بعد ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال پہنچنے کے فورا بعد بے نظیر کو سٹریچر پر پارکنگ ایریا کے اندر لے جایا گیا۔اس وقت نہ تو ان کی نبض چل رہی تھی اور نہ ہی وہ سانس لے رہی تھیں۔ان کی آنکھوں کی پتلیان ایک جگہ ٹھہری تھیں اور ٹارچ کی روشنی سے بھی ان میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ وہ ختم ہو چکی تھیں ، ان کے سر سے مسلسل خون نکل رہا تھا اور وہاں سے ایک سفید مادہ نکل آیا تھا۔موت کے مکمل شواہد کے باوجود ڈاکٹروں نے انھیں بچانے کی پوری کوشش کی۔ ان کے گلے میں ایک ٹیوب ڈالی گئی۔بے نظیر کی ناک اور کان سے خون بہہ رہا تھا۔ حملے کے پچاس منٹ بعد، چھ بجنے سے کچھ منٹ پہلے ڈاکٹر انھیں آپریشن تھیٹر لے گئے۔پروفیسر مصدق خان نے ان کا سینہ چاک کیا ان کے دل کی اپنے ہاتھوں سے مالش کرنے لگے۔ لیکن ان میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔اس طرح چھ بج کر 16 منٹ پر بے نظیر کے وجودکو مردہ قراردے دیا گیا ۔
پروفیسر مصدق خان جنہوںنے بے نظیربھٹو کے دل کی دھڑکن بحال کرنے کیلئے کی سرجری کی تھی، موت کے بعد انہوں نے تین بار پوسٹ مارٹم کی اجازت طلب کی لیکن پولیس چیف سعود عزیز سے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔اسی رات دس بج کر 35 منٹ پر لکڑی کے تابوت میںبے نظیربھٹو کیمیت کو چکلالہ ائیربیس لے جایا گیا۔اگلے دن28 دسمبر کی رات ایک بجے میت ان کے شوہر آصف علی زرداری کے حوالے کردی گئی جو چند منٹ قبل دبئی سے وہاں پہنچے تھے۔ جب زرداری پاکستان پہنچے تو ان سے بھی بینظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت طلب کی گئی لیکن انھوں نے بھی اس کی اجازت نہیں دی۔28 دسمبر2007 کو لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کو سپرد خاک کردیا گیا۔ جہاں بھٹو خاندان کے دوسرے افراد بھی دفن ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دنیا بھر میں اپنے عہد کی 20 بااثر شخصیات میں دوسرے نمبر پر تھیں ایک غیر ملکی ویب سائٹ نے دنیا بھر میں 2007ء کی 20 با اثر شخصیات کی فہرست جاری کی ۔جس کے مطابق ہیلری کلنٹن پہلے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو شہید دوسرے نمبر پر تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2007ء میں دنیا کی 20 با اثر شخصیات میں گیارہ خواتین کوشامل کیا گیا جن میں امریکی سینیٹر ہیلری کلنٹن پہلے نمبر پر اوردوسرے نمبر پر آنے والی بے نظیر بھٹوشہید پاکستان کی واحد خاتون رہنما تھیں جنہیں دوبار وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ اور اپنی شہادت کے دن تک دہشت گردوں کے مقابلے میں جرات اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ غیر ملکی ویب سائٹ کی رپورٹ میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اپنے کردارو عمل سےبے نظیر بھٹو کا شمار ایسی خواتین میں تھا جو تاریخ رقم کرتی ہیں۔