زرعی ٹیکس،مرے کو مارے شاہ مدار

کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ افراد پر ٹیکس کا نفاذ حکومت کا آئینی حق ہے مگرجس شعبہ پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہو اس کو پیسہ کمانے میں سہولیات کی فراہمی بھی حکومت کا فرض ہے،بد قسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس عائد کرتے وقت یہ سب کچھ نہیں سوچا جاتا، جن پر ٹیکس لگایا جاتا ہے انہیں درپیش مشکلات کا مداوا کیا جاتا ہے نہ ان کے کاروبار کو تحفظ دیا جاتا ہے،اسی طرح ان کے منافع کو یقینی بلکہ پیداواری لاگت کو بھی یقینی نہیں بنایا جاتا۔حال ہی میں پنجاب حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پرزرعی آمدن یعنی کاشتکاروں پرٹیکس عائد کرنے کا بل پاس کیا ہے،جبکہ کسان کی حالت یہ ہے کہ اکثر و بیشتر کو کاشتکاری کیلئے نہری پانی بھی وافردستیاب نہیں،ٹیوب ویل لگانے کی ہر کسان میں مالی استطاعت نہیں،اگر قرض لے کر نصب کر بھی لے تو بجلی کے بل کسان کی فصل کی نصف آمدن سے زیادہ ہوتے ہیں،کھاد،بیج،زرعی ادویہ اور آلات کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسان کو اس کی فصل کی وہ قیمت بھی نہیں ملتی جس جس کا وہ حقدار ہے۔ زراعت سے 60فیصد ملکی آبادی کا روزگار وابستہ ہے مگر یہ واحد شعبہ ہے جس کو کسی بھی حوالے سے کوئی سہولت اور مراعات حاصل نہیں،اپنی فصل کی فروخت کیلئے کسان مافیاز کا ظلم سہنے پر مجبور ہے،نتیجے میں آج بھی دیہی آبادی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے،بڑے زمیندار اگرچہ آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کا بھی بڑا حصہ کاشت کیساتھ صنعت سے وابستہ ہو چکا ہے،اکثر کی زرعی پیداوار ان کی اپنی فیکٹریوں میں ہی کھپ جاتی ہے۔ ٹیکس عائد کرنا حکومت کا حق ہے مگر اس سے پہلے کسان کو خوشحال کرنا ہو گا اور اسے اس قابل بنانا ہو گا کہ وہ ٹیکس ادا کر سکے،ورنہ ملک کی60فیصد آبادی جو پہلے ہی معاشی بد حالی کا شکار ہے مزید مالی مشکلات سے دوچار ہو جائے گی،اس اقدام سے مہنگائی کا جن جو پہلے ہی سر کھولے ناچ رہا ہے ملک کے 70فیصد عوام کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑلے گا،یوں انا ج اگانے والے بھی بھوکے مریں گے اور خریدار بھی۔

زرعی ٹیکس کو سپر ٹیکس کا نام دیا گیا ہے جس کا اطلاق آئندہ مالی سال سے ہو گا،زرعی آمدن کے ٹیکس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت زرعی انکم ٹیکس کو آمدن یا ایکڑ کے حساب سے وصول کیا جائے گا،دستاویزات کے مطابق چھ لاکھ روپے سالانہ آمدن والے کسان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا جب کہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ والے کاشت کار پر چھ لاکھ کا 15 فی صد سالانہ ٹیکس عائد ہو گا،یعنی ٹیکس کی شرح 15فیصد ہو گی جو کہ ظالمانہ شرح ہے، زرعی انکم ٹیکس نہ دینے والے کسان کو جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا جس کی شرح مختلف آمدن کے حساب سے مختلف مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب کی اسمبلی کی جانب سے زرعی انکم ٹیکس بل کی منظوری پر کسان تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے،کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبے میں کسان کی مالی حالت پہلے ہی خراب ہے اور ایسے میں ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کران کی مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے،منظور کئے گئے مسودے کے مطابق لائیو سٹاک پر ٹیکس بھی زرعی ٹیکس میں شمار کیا جائے گا اور لائیو سٹاک کا تصور پنجاب لائیو اسٹاک بریڈنگ ایکٹ 2014 کے مطابق ہو گا۔

پنجاب اسمبلی سے زرعی انکم ٹیکس کی منظوری کے بعد باغات پر بھی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے اور اِس ٹیکس کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کے تحت نہری پانی پر انحصار کرنے والے باغ پر 600 روپے فی ایکڑ سالانہ جب کہ نہری پانی نہ ملنے والے باغ پر 300 روپے فی ایکڑ سالانہ ٹیکس لگایا گیا ہے،واضح رہے کہ پانی کی فراہمی پر انگریز دور سے کسان آبیانہ ادا کرتا آ رہا ہے، واضح رہے اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے زراعت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے پاس ہے اور پنجاب نے سب سے پہلے صوبے میں زرعی آمدن پر ٹیکس کا بل پاس کیا ہے۔

کسانوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری حسیب انور کہتے ہیں کہ حکومت نے جس طرح اور جس تیزی سے کسانوں پر ٹیکس لگایا ہے اور ٹیکس کی شرح زیادہ رکھی ہے اْس سے حکومت کو ٹیکس کم ملے گا البتہ کرپشن بڑھے گی،ن کا کہنا تھا کہ پنجاب کے کسان کی تو پہلے ہی آمدن بہت نیچے چلی گئی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان کاشت کار کو ہو گا، حکومت کو چاہئے تھا پہلے وہ صوبے کے کسان کو اِس قابل بناتی کہ اْس کی آمدن میں اضافہ ہوتا اور پھر اُس سے ٹیکس لیا جاتا، رواں سال کسانوں کو گندم، چاول، مکئی اور تِل کی فصلوں میں 15 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے فی ایکڑ پہلے ہی نقصان ہوا ہے۔

ماہرین معاشیات سمجھتے ہیں زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے سے قبل حکومت کو زراعت میں استعمال ہونے والی اشیا اور فصلوں کی بوائی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتیں کم کرنا ہوں گی،ماہرِ معاشیات قیس اسلم کہتے ہیں کسانوں سے ٹیکس وصولی کا منصوبہ آئی ایم ایف کا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے مجبوری میں یہ بل پنجاب اسمبلی سے منظور کرایا ہے، اْن کا کہنا تھا کہ ملک میں کسانوں کے استعمال میں اشیا اور فصلوں کی بوائی میں استعمال ہونے والی کھادیں، بیج، سپرے اور دیگر چیزیں بہت مہنگی ہیں، انکم ٹیکس بلا تفریق ہوتا ہے وہ صنعتی یا زرعی نہیں ہوتا۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رہنما تحریک انصاف کے احمد خان بھچر نے ٹیکس کو کسان دشمنی قرار دیا جبکہ حکومت کی اتحادی جماعت نے بل کی بھر پور مخالفت کی اور اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا جس میں بل پیش کیا گیا تھا،گویا زرعی ٹیکس نے حکومتی اتحاد میں اختلافات کے بیج بو دئیے ہیں،دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،تا ہم زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ بھوکوں کے پیٹ پر لات کے مترادف ہے،کسان اتحاد نے 24نومبر کے پی ٹی آئی احتجاج میں شمولیت کا اعلان کیا ہے،ایسا نہ ہو کسانوں کی پیداوار پر ٹیکس کا اقدام حکومت کی فصل کاٹنے کا سبب بن جائے۔آخر میں کسانوں کے لئے فیض احمد فیض کی ایک نظم

اْٹھ اْتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
بھولیا! تْوں جگ دا ان داتا
تیری باندی دھرتی ماتا
توں جگ دا پالن ہار
تے مردا کیوں جائیں
اٹھ اْتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
جرنل، کرنل، صوبیدار
ڈپٹی، ڈی سی، تھانیدار
سارے تیرا دتّا کھاون
توں جے نہ بیجیں، توں جے نہ گاہویں
بھْکھّے، بھانے سب مر جاون
ایہہ چاکر توں سرکار
مردا کیوں جائیں
اٹھ اْتاں نوں جٹّا
مردا کیوں جائیں
وچ کچہری، چونکی تھانے
کیہہ اَن بھول تے کیہہ سیانے
کیہہ اشراف تے کیہہ نمانے
سارے کھجّل خوار
مردا کیوں جائیں
اٹھ اْتاں نوں جٹّا
ایکا کر لؤ، ہو جاجاؤ کٹھّے
بھْل جاجاؤ رانگڑ، چیمے چٹھے
سبھے دا اِک پریوار
مردا کیوں جائیں

اپنا تبصرہ لکھیں