وزیراعظم شہباز شریف نے فرمایا ہے ’’سیاسی و معاشی استحکام کے لئے وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف ایک پیج پر ہیں‘‘، معاشی استحکام کے لئے ان تینوں کا ایک پیج پر ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ معاشی معاملات سے آرمی چیف کو الگ رکھنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا مگر’’سیاسی استحکام میں آرمی چیف کو گھسیٹنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے پاکستان کی سیاست سے کسی آرمی چیف کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ بات آئی ایس پی آر بھی کئی بار کہہ چْکا ہے، جناب شہباز شریف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے ہر طریقے سے مکمل جانکاری حاصل کر چکے ہیں، چنانچہ اپنی طرف سے اْنہوں نے درست فرمایا ہے’’سیاسی و معاشی استحکام کے لئے آرمی چیف بھی اْن کے پیج پر ہیں‘‘، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوتا ’’ہم آرمی چیف کے پیج پر ہیں‘‘، پاکستان کے غلام سیاسی حکمران اول تو ڈھنگ کا کوئی کام کرتے نہیں، کر بھی لیں اْس کا کریڈٹ اْنہیں مجبورا اپنے مالکان کو ہی دینا پڑتا ہے، اپنے اقتدار کے اوائل میں ہمارے خان صاحب بھی جنرل باجوے کے اتنے مداح تھے مجھے خدشہ رہتا تھا کسی روز وہ جوش خطابت میں یہ سچ بھی اْگل دیں گے کہ’’ہمیں اقتدار میں جنرل باجوہ لے کر آیا تھا‘‘اور یہ بھی نہ کہہ دیں’’یہ جوہم عوام کو صحت کارڈ، لنگر خانوں اور مسافر خانوں کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں یہ جنرل باجوے کے حکم اور وژن کے مطابق ہی کر رہے ہیں‘‘، جہاں تک وزیراعظم شہباز شریف اور صدر زرداری کے ایک پیج پر ہونے کا معاملہ ہے اْن کی اپنی ضرورتوں سے زیادہ اْن کے مالکان کی ضرورتوں نے اْنہیں ایک پیج پر رکھا ہوا ہے، کل کلاں اْن کے مالکان کو اْنہیں ایک بار پھر الگ الگ پیج پر رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ایک بار پھر وزیراعظم شہباز شریف صدر زرداری کو لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہوں گے اور صدر زرداری ایک بار پھر یہ فرما رہے ہوں گے’’اب اگر ہم نے ’’میاں‘‘ کو چھوڑا اللہ میاں ہمیں نہیں چھوڑے گا کیونکہ یہ قومی چور ہیں‘‘، اس مْلک میں قومی چوروں اور قومی ڈاکوؤں میں اقتدار تقسیم کرنے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، یہ وقت بھی ہم نے دیکھنا تھا اس مْلک کے وزیراعظم شہباز شریف، صدر زرداری اور ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم پاس کروانے میں جو سہولت کاری مولانا فضل الرحمان نے کی اْن کا یہ حق بنتا ہے آئین میں مزید ایک ترمیم کرا کے یا بغیر کسی ترمیم کے ہی ’’ڈپٹی صدر‘‘ کا کوئی عہدہ تخلیق کر کے اْنہیں سونپ دیا جائے، 26 ویں آئینی ترمیم کو پاس کروانے میں اپنا جو مشہور و معروف کردار اْنہوں نے ادا کیا ہے تاریخ اْسے ہمیشہ یاد رکھے گی، فنکاریوں میں وہ اب زرداری کو بہت پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں، اتنی اہمیت تو ہمارے وزیراعظم اور صدر کو نہیں ملتی جتنی اہمیت 26 ویں ترمیم کو پاس کرانے کے لئے ہمارے مولانا کو ملی ہے، اس دوران بلاول زرداری کو کئی بار مولانا کے پاس جانا پڑا، ممکن ہے مولانا نے خود یہ ضد یا تقاضا کیا ہو ’’مجھ سے کوئی بات منوانی ہے تو بلاول زرداری کو بار بار میرے پاس بھیجا جائے‘‘، اس معاملے میں مولانا کی اہمیت اتنی بڑھتی جا رہی تھی شْکر ہے اْنہوں نے یہ تقاضا نہیں کر دیا ’’آرمی چیف کو میرے پاس بھیجا جائے‘‘، ورنہ حکومت کو ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑ جاتا، آئینی ترمیم پاس ہونے کی جتنی خوشی اگلے متوقع وزیراعظم بلاول زرداری کو ہوئی شاید ہی اور کسی کو ہوئی ہوگی، اْنہیں چاہئے تھا یہ’’اعزاز‘‘ حاصل کرنے کے فورا ًبعد اپنے نانا اور والدہ کی قبروں پر جا کر اْن سے یہ گلہ کرتے‘‘آپ نے خوامخواہ’’اْصولی سیاست‘‘ کر کے اپنی جانیں گنوائیں، مجھے دیکھئے ’’وصولی سیاست‘‘ کر کے مزے لْوٹ رہا ہوں ‘‘، میں نے ایک وڈیو کلپ دیکھا بلاول زرداری گاڑی سے اْترتے ہی انتہائی ہائے اللہ جی سٹائل میں میرے پسندیدہ صحافی مطیع اللہ جان کو آئینی ترمیم پاس ہونے کی مبارک دے رہے تھے، جیسے اس ترمیم کے پاس ہونے کی صورت میں اگلا چیف جسٹس آف پاکستان مطیع اللہ جان نے بننا ہو، بلاول زرداری نے اس ترمیم کو پاس کرانے کے لئے جو محنت کی خصوصا ًبار بار مولانا کے پاس جا کر جو قربانی دی اْس کے نتیجے میں اب اْن کا یہ حق بنتا ہے جلد یا بادیر وزیراعظم کا عہدہ اْن کے سپرد خاک کیا جائے، اللہ کی قسم جتنا مزا ہمیں اْن کے وزیراعظم بننے کا آئے گا شاید ہی اور کسی کے وزیراعظم بننے کا آیا ہوگا، جس طرح کے ہمارے عوام ہیں اْن کی صحیح نمائندگی کا حق بلاول زرداری کو ہی حاصل ہونا چاہئے، بطور وزیراعظم وہ جتنے چاہیں غلط کام کریں ہم اْن پر تنقید بھی نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سْن رکھا ہے ان کی بددعا بہت لگتی ہے، چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پر مولانا نے فرمایا ’’ہم نے کالے سانپ کے زہریلے دانت نکال دئیے ہیں‘‘، دوسری طرف کالے سانپ کا بھی یہی خیال ہے، ویسے اس مْلک کی آستینوں میں اتنے سانپ ہیں اْنہیں صرف اللہ ہی مار سکتا ہے، ہمارے کچھ سیاہ ست دان، سانپوں سے بھی زیادہ زہریلے ہوتے ہیں، اگلے روز ایک سیاہ ست دان کے بیٹے نے فون پر مجھے بتایا ’’ابو کو سانپ نے کاٹ لیا ہے‘‘، بے ساختہ میں نے پوچھا ’’سانپ بچ گیا ہے ؟‘‘، چھبیسویں آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کا ’’مشترکہ کھاتہ‘‘ ہے، اس مبارک موقع سے صرف ایک جماعت پی ٹی آئی فرار ہوگئی، اسے فرار ہونے کا موقع شاید اس لئے دیا گیا ان کے جتنے لوگوں یا لوٹوں کی ضرورت تھی اْنہیں قابو کر لیا گیا تھا، پی ٹی آئی کچھ مزید لوٹے ممکن ہے اگلی کسی ترمیم کے لئے استعمال کر لئے جائیں، بدقسمتی سے عمران خان کی جماعت پر اب زیادہ تر اْن لوگوں کا قبضہ ہے جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے وہ ملزم اور مدعی دونوں پارٹیوں سے پیسے پکڑ لیتے ہیں، زین قریشی کے لوٹا بننے کی اصل وجہ مجھے معلوم ہے، اْن کے ابا جی شاہ محمود قریشی کے ابھی تک مسلسل جیل میں ہونے کی اصل وجہ بھی مجھے معلوم ہے، پی ٹی آئی میں ایک متبادل لیڈر تیار کرنا ضروری ہے، جس کے لئے جیل کی وہ ’’سختیاں‘‘ بھی ضروری ہیں جو اندر ہی اندر سے بہت ’’نرمیاں‘‘ ہوں، آج عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں جیل سے باہر کسی مقام پر نظر آگئے دونوں کی حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو جائے گا کس کو کس مقصد کے لئے جیل میں رکھا گیا ہے ؟
اشتہار
موسم کی صورت حال
More forecasts: Weather Johannesburg 14 days