ستیہ جیت رے سے ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کا ابتدائی تعارف ان کی اردو فلم’’ شطرنج کے کھلاڑی‘‘ سے ہوا، 1857ء کی جنگ آزادی اور اودھ کی تہذیب کےپس منظر میں پریم چند لکھی گئی کہانی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ کے نام سے بنی اس فلم میں اس وقت کا پورا عہد بولتا ہے ۔ ناول نگار پریم چند کی کہانی دو نوابوں کے گرد گھومتی ہے اور کہانی کے اختتام پر وہ آپس میں لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ منشی پریم چند نے اپنی کہانی میں نوابی تہذیب کے خاتمہ کا سبب انگریزوں کی آمد کو بتایاہے۔ لیکن رے نے اس کہانی کو تھوڑا تبدیل کردیا ہے اورایک نیا مطلب دیتے ہوئے فلم کے آخر میں نوابوں کا رول اداکرنے والے سنجیو کمار اور سعید جعفری مرنے نہیں دیا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر گولی چلاتے ہیں لیکن دونوں بچ جاتے ہیں۔ یہاں رے نے دوسری حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی کہ نوابی تہذیب ختم ہوگئی ہے مگر اس کی برائیاں اب بھی سماج میں موجود ہیں۔ رے نے ایک انٹرویو میں اس فلم کے بارے میں کہا تھا کہ انہیں ہندی نہیں آتی۔ اگر ان کی اس زبان پر قدرت ہوتی تو ’شطرنج کے کھلاڑی دسگنا بہتر ہوتی۔ پھر بھیپریم چند نے اپنی کہانی میں اس عہد کے بارے میں جو کہنا چا ہا ، ستیہ جیت رے نے اپنی فلم میں زیادہ واضح انداز میں پیش کیا۔ ’شطرنج کے کھلاڑی‘ فلم دیکھ کر بعض اوقات لگتا ہے کہ کہانی کے مقابلے میں اودھ کی تہذیب کا منظر نامہ فلم میں زیادہ واضح ہے۔ اور یہی دراصل ستیہ جیت رے کا کمال فن ہے۔
ممبئی سے 1955 فلمی سفر کا آغاز کرنے والے بھارت کے عظیم ہدایت کار اور فلم ساز ستیہ جیت رے کی آج برسی کا دن ہے۔وہ 23؍اپریل 1992ء کو چل بسے تھے۔ہندوستانی فلم کی تاریخ ستیہ جیت رے کے تذکرے کے بغیر ہمیشہ ادھوری ہے۔ ستیہ جیت رے نے اپنی وفات سے چند روزقبل 1992 میں آسکر ایوارڈ کا اعزاز اپنےنام کیاتھا۔ستیہ جیت رے کو بالترتیب داداصاحب پھالکے ایوارڈ اور ہندوستان رتن سے بھی نوازا گیا تھا، جو ملک کا اعلی ترین فلم اور سویلین ایوارڈ ہے۔’ رے نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1955 میں اپنی فلم’’ پاتھر پانچالی‘‘ سے کیا تھا۔ جسے کینز فلم فیسٹیول میں بہترین انسانی دستاویزی فلم قرار دیا تھا۔۔ ’پاتھر پانچلی ‘‘ ان کی پہلی تخلیق تھی ، اسکی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی مڑ کے نہیں دیکھا اور کم و بیش چالیس سال تک فلمی صنعت کے بے تاج بادشاہ رہے۔ ان کی دوسری فلم’’ اپارا جیتو‘‘ 1956 اور تیسری فلم ’’اپور سنسار‘‘ 1959 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ان فلموں نے برلن کے فلمی میلے میں متعدد اعزازات حاصل کیے تھے۔ انہوں نے 1983 میں ایک برطانوی انسٹی ٹیوٹ کی فیلوشپ بھی حاصل کی تھی۔ 1987 میں فرانس کی حکومت نے انہیں لیجن آف آنر کے اعزاز سے نوازا تھا۔ہندوستان میں رے کی فلموں نے 36 مرتبہ قومی فلم ایوارڈز جیتےتھے انہوں نے ان سالوں میں چھتیس 36 فیچر اور دستاویزی فلمیں بنائیں۔ حقیقی زندگی پہ بنیاد رکھی جانے والی ان فلموں میں محض دکھ اور المیہ ہی نہیں خوشیاں اور طنز و مزاح بھی ہے۔ ستیہ جیت رے فلمسازی سے متعلق کئی کام خود ہی کرتے تھے۔ ان میں اسکرین پلے، بیک گراؤنڈ میوزک، آرٹ ڈائریکشن اور ایڈٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔وہ محض فلم ہدایتکار ہی نہیں فکشن رائٹر، پبلشر، مصور، خطاط، گرافک ڈیزائنر اور فلم نقاد بھی تھے۔ اس حوالے سے ستیہ جیت رے کا ماننا ہے کہ کہانی لکھنا ہدایتکاری کا اٹوٹ حصہ ہے۔ بچوں کی میگزین اور کتابوں کیلئے بنائے گئے رے کے اسکیچ کوآرٹ ناقدآرٹ کے بہترین مصوری کے شعبہ میں رکھتے ہیں۔ رے کی ’چائلڈ سائیکلوجی‘ پر مضبوط پکڑ تھی اور اس بات کی اطلاع ان کی کہانیوں کی سیریز میں ملتی ہے۔ اس سیریزکی کہانیوں کا تجسس اور حیرت انگیز تحریر قارئین کو باندھ کر رکھنے میں اہم رول اداکرتے ہیں۔
