سقوط ڈھاکہ: غلطیوں پرشرمندہ نہ ہونا تباہی ہے!

ہم ہر سال 16دسمبر کو خاموشی سے گزار دیتے ہیں، لیکن اپنا احتساب تو دور کی بات اس بات پر بھی غور و فکر نہیں کرتے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم آج تک ایک قوم نہ بن سکے، ہمارے اندر ایک ملک میں رہتے ہوئے کئی برائیاں کیوں ہیں؟ ہم اپنے اداروں سے ہر گزرتے دن میں متنفر کیوں ہورہے ہیں؟ کیوں مشرقی اور مغربی پاکستان نفرت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الگ ہوگئے؟ کیوں ہم آج تک اپنی غلطی تسلیم کرنے سے قاصر ہیں؟ ہم نے تو آج تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ یہاں پر ڈکٹیٹر شپ یا مارشل لاﺅں میں بھی کوئی غلطیاں ہوئی ہیں یا نہیں؟یہ غلطیاں نہ ماننے کا ہی صلہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے حالات 1971ءجیسے ہیں۔ بلوچستان ہو یا کے پی کے ہر طرف نفرت کی آگ ہے۔ بلوچستان کو دیکھ لیں پاکستان کے کل رقبے کا 40فیصد ہے، وہاں کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے، جو کل پاکستان کاصرف6فیصد ہے، جبکہ 94فیصد پاکستان کی آبادی وہاں نہیں جا سکتی۔ وہاں جانے والے غیر بلوچیوں کے شناختی کارڈ چیک کرکر کے اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ تصادم وہاں ہے، اہل تشیع حضرات کوئٹہ کے راستے ایران میں زیارتوں کے لیے نہیں جا سکتے۔ وہاں پر آزادی پسند تحریکوں اور گروہوں کو دبانے کے لیے آپریشنز بھی کیے گئے مگر بجائے افاقہ ہونے کے وہاں مسائل میں اضافہ ہوا ۔یعنی سکیورٹی اداروں کے آپریشن میں جن کے لوگ مارے جاتے ہیں، اُس پورے خاندان میں نفرت کی آگ بڑھک اُٹھتی ہے۔ پھر آپ کے پی کے کا حال دیکھ لیں، پورا صوبہ بے چین ہے، وہ اپنے جائز مطالبات کے لیے دو مرتبہ وفاق میں داخل ہو ا ، لیکن مجال ہے کہ کسی کے سر پر جوں تک رینگی ہو۔ اُلٹا 27نومبر کو گولیاں چلا کر جواب دیا گیا۔ یعنی حالات بالکل ویسے ہی ہیں، جیسے مشرقی پاکستان کے بنا دیے گئے تھے، وہاں بھی نفرت کے بھیج ہم نے خود بوئے تھے۔
اور پھر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کہیں پر بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہم تو یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ یہ سب کچھ ڈکٹیٹر شپ کے دور میں ہوا۔ یعنی کہیں ذکر نہیں ہے کہ یہ حالات 13سال 2مہینے سے زیادہ کی غیر نمائندہ حکومتوں نے پیدا کیے۔7اکتوبر 1958ءسے 16دسمبر 1971ءتک وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان کی شراکت داری نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ اور اس دوران وہاں کا چیف سیکرٹری بھی ہمیشہ مغربی پاکستانی ہی کا لگایا جاتا تھا جبکہ مغربی پاکستان میں ایک دن کیلئے بھی یہ پوزیشن کسی مشرقی پاکستانی کے حوالے نہیں کی گئی تھی۔ بنگالی سیاسی لیڈروں کے اس احتجاج کو حقارت سے رد کیا جاتا رہا کہ”کیا ہم لوگ آپ کے ”کولونیل غلام“ ہیں جو ہمارے صوبے میں ہمارا چیف سیکرٹری نہیں لگاتے ہو“۔ بالکل اسی طرح شیخ مجیب الرحمٰن کے اس اعتراض کو بھی ایڈریس نہیں کیا گیا تھا جسے وہ بار بار دہراتے تھے”مجھے اسلام آباد کے در و دیوار سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے“۔ اس ڈکٹیٹرشپ کے دوران اگر بنیادی جمہوریتوں کے نام پر نام نہاد الیکشن ہوئے بھی تو ریاستی مشینری کو دھاندلی کے لیے استعمال کر کے ڈکٹیٹر ایوب کو کامیاب قرار دیا گیا۔ جبکہ ڈکٹیٹرشپ کے تمام مظالم کے باوجود عوام نے کراچی اور ڈھاکہ میں مادرملت کو جتوا کر تاقیامت تاریخ میں عوام کا حقیقی انتخاب درج کر دیا۔
اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں تعینات اسسٹنٹ کمشنراکبر ایس احمد کہتے ہیں کہ 90فیصد تک بنگالی اپنے آپ کو پرو پاکستانی ہی سمجھتے تھے۔ لیکن 25مارچ 1971ءمیں جب بنگالیوں پر افواج کی طرف سے براہ راست فائرنگ کی گئی تو اُس وقت 90فیصد بنگالی مغربی پاکستان سے متنفر ہو چکے تھے۔ دراصل 7 مارچ کو شیخ مجیب نے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد حالات خراب ہوئے اور 25مارچ کو آپریشن کیا گیا۔ جبکہ اسی اثناءمیں ہمارے سکیورٹی ادارے کہتے ہیں کہ بنگالی جوانوں پر مشتمل ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز مع پولیس نے بغاوت کردی تھی۔ یہ اسلحے کے ساتھ ندی، نالوں اور کھیتوں کے ذریعے بھارت کی جانب بھاگ رہے تھے اور راستوں میں آنے والی غیر بنگالیوں کی آبادیوں کا صفایا کرتے جا رہے تھے۔ 25 مارچ سے پہلے پاکستان کی فوجوں نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس لئے پاکستان کی طرف سے بنگالیوں کی نسل کشی کا کیا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟ لیکن جو بھی ہے، ان دنوں جس علاقے میں بھی دورہ کیا جاتا وہاں لاشیں ہی لاشیں ملیں۔ جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی تھی وہاں گھس کر ان کو بھی قتل کیا گیا(یاد رہے یہ غیر بنگالیوں کا قتل عام تھا)۔ مغربی پاکستان کے فوجیوں کو مسجدوں میں آٹھ آٹھ انچ خون کی تہیں جمی ہوئی ملیں۔
خیر بات ہو رہی تھی اکبر ایس احمد کی تو وہ کہتے ہیں کہ جب آپ کسی پر گولی چلاتے اور طاقت کے ذریعے اُسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو آج ہٹلر یا اسٹالن دنیا کے کامیاب ترین حکمران ثابت ہوتے، یا وہ اس وقت بھی دنیا پر حکمرانی کر رہے ہوتے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میں نے مغربی پاکستان کا رویہ دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ملک 6ماہ کے اندر اندر مغربی پاکستان سے الگ ہو جائے گا۔ کیوں کہ اُس وقت کوئی ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی بات نہیں کر رہا تھا۔ شاید یہ اس لیے تھا کہ ہم نے شیخ مجیب الرحمن سے نفرت کا بیج بویا ہوا تھا، ہم اُسے کسی صورت بھی قبول نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ مطلب! بات قومیت سے نکل کر شخصیات کے پسند ہونے یا نہ ہونے پر آگئی تھی۔ پھر ہم یہاں یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ تو ہمیشہ شخصیات سے رہا ہے، آپ فاطمہ جناح سے لے کر عمران خان تک دیکھ لیں ، ہمار ی لڑائی کسی مسئلے پر نہیں بلکہ شخصیات سے ہوتی ہے، اُس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن عوام میں پاپولر تھے، آج بانی تحریک انصاف نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے، لیکن مقتدرہ ان کو اتنا ہی Dislikeکرتی ہے۔ اور پھر یہی نہیں 2017ءمیں نواز شریف مقتدرہ کو پسند نہیں تھے، اُس کے لیے بھی شاید کہیں سے سازش رچائی گئی، پھر سنا ہے بے نظیر بھی اُنہیں پسند نہیں تھی، اُنہیں سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا، پھر اُنہیں مبینہ طور پر مار بھی دیا گیا۔ الغرض کیا پاکستان میں کوئی سیاستدان محب وطن بھی رہ گیا ہے؟ یا سارے غدار ہیں؟ اگر نہیں تو یہ ہماری غلطی نہیں کہ ہم آج بھی وہی ”کارنامے“ دکھا رہے ہیں۔ اُس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے رہے، مگر کسی نے نہ سنی۔ آج بھی ویسا ہی ماحول بنا دیا گیا ہے۔ ہم کبھی عوامی مسائل سے لڑائی نہیں لڑتے، کبھی ہم نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کیا، لہٰذاجب تک ہم عوامی مسائل پر بات نہیں کریں گے، اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل نہیں کریں گے، ہم ایسے ہی مسائل سے دوچار رہیں گے۔ بقول شاعر
مجھ سے زیادہ کون تماشہ دیکھ سکے گا
بہرحال میں یہاں یہ نہیں کہہ رہا کہ بلوچستان اور کے پی کے میں حالات خراب ہیں تو باقی دونوں صوبوں میں بہتر ہیں۔ آج پنجاب میں بھی آوازوں کو دبانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہاں بھی نفرت کی آگ بدرجہ اُتم موجود ہے،اس کی مثال آپ یہ بھی لے سکتے ہیں کہ 8فروری کے الیکشن میں عوام نے مقتدرہ کی مرضی کے خلاف تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا۔ جس کے بعد آپ کو 45کے بجائے فارم47پر حکومت بنانا پڑی۔ یہ پنجاب والوں کا صبر نہیں تو اور کیا ہے؟ اور کیا یہ صبر دیرپا ہو سکتا ہے؟ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ولی خان کی یہ بات سچ ثابت نہ ہو جائے کہ مقتدرہ کے خلاف آخری جنگ پنجاب سے لڑی جائے گی۔
لہٰذامیں اس کالم میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ”جنگ “اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ابھی بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا وقت ہے، ابھی بھی آپ یہ بات تسلیم کرلیں کہ آپ عقل کل نہیں ہیں، آپ بھی انسان ہیں، انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، لیکن ان غلطیوں سے سیکھیں گے نہیں تو ہمیشہ تباہی کی طرف جاتے رہیں گے۔ نہیں یقین تو آپ جرمنی اور جاپان کی ترقی کی بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعدا نہوں نے سب سے پہلے معافی مانگی، کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطیوں کو سدھارا اور آج وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے کسی جنگ میں آج تک اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کی۔ نہ 1971ءمیں نہ کارگل جنگ میں اورنہ ہی اُس کے بعد کی کسی محاذ آرائی میں۔ بلکہ 1947ءسے آج تک ہم نے جتنی بھی غلطیاں کی ہیں، ہم کسی صورت نادم نہیں ہیں۔ آج بھی ہم جو غلطیاں کر رہے ہیں بجائے اُس پر شرمندہ ہونے کے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے سے ہی عاری ہیں۔
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی مسائل کو سمجھتے ہوئے ہمیں ایک تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے، جو نہ تو مقتدرہ کا نمائندہ ہو، نہ حکومت کا اور نہ ہی اپوزیشن کا۔ اس تھنک ٹینک کی ایک قانونی حیثیت ہو، وہ دیرپا پالیسیاں بنائے، اور آہستہ آہستہ سیاست سے اداروں کا اثرو رسوخ ختم کرے۔ اس کے لیے موجودہ آرمی کی قیادت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں خاکم بدہن ذہنی طور پر ایک بڑے سانحے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے جو ہماری دہلیز پر بالکل تیار کھڑا ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں