گزشتہ روز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ 2024ء کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو درپیش کئی چیلنجز کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز بیانات، عدم برداشت، اور گمراہ کن معلومات کے پھیلاؤ جیسے مسائل نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کیلئےخطرہ ہیں بلکہ سیاسی اور سماجی ڈھانچوں کو بھی غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ آرمی چیف نے زور دیا کہ ان مسائل کا مقابلہ کرنے کیلئے جامع قوانین اور مضبوط معاشرتی شعور کی ضرورت ہے۔
آرمی چیف کی نشاندہی ایک ایسے مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے جو آج کے دور میں پوری دنیا، بالخصوص پاکستان، میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا، جو ابتدا میں لوگوں کو جوڑنے، معلومات کے فوری تبادلے، اور کمیونٹیز کی تشکیل کیلئے متعارف کرایا گیا تھا، اب گمراہ کن معلومات اور جعلی خبروں کے تیزی سے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے معاشرتی تفریق، سیاسی کشیدگی، اور عوامی اعتماد میں کمی کو فروغ دیا ہے۔ غیر مصدقہ خبریں اور افواہیں، جو اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بغیر کسی تصدیق کے شیئر کی جاتی ہیں، معاشرے میں تنازعات اور کشیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر، اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر فرقہ وارانہ تنازعات اور نسلی تقسیم کو بڑھاوا دینے والی پوسٹس اور ویڈیوز نہایت تیزی سے وائرل ہوتی ہیں، جو سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
یہ رجحان مذہبی حساسیت کے حوالے سے بھی شدید خطرناک ہے۔ جھوٹے بیانیے جو مذہبی شخصیات، عقائد، یا واقعات کو نشانہ بناتے ہیں، فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاتے ہیں، جو اکثر تشدد اور ہجوم کے حملوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسی معلومات پر جلد بازی میں یقین کرنے کی روایت معاشرتی امن و امان کیلئےسنگین خطرہ ہے۔
مزید برآں، حالیہ دنوں میں مصنوعی ذہانت (AI) کے غلط استعمال نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ AI کے ذریعے جعلی ویڈیوز، تصاویر، اور خبریں بنائی جا رہی ہیں جو عوام کو گمراہ کرنے اور معاشرتی انتشار پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ بدقسمتی سے، اس مسئلے پر مؤثر طریقے سے قابو پانے کیلئے کوئی مؤثر نگرانی یا احتساب کا نظام موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کے پھیلاؤ کا مسئلہ صرف اندرونی نہیں بلکہ بیرونی ذرائع سے بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ دشمن ممالک یا غیر ریاستی عناصر پاکستان کی نسلی اور مذہبی حساسیت کا فائدہ اٹھا کر جھوٹے بیانیے پھیلاتے ہیں، جن کا مقصد قومی اتحاد کو کمزور کرنا اور انتشار پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایسے جھوٹے بیانیے خاص طور پر سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں دیکھے گئے ہیں، جو نہ صرف عوام کو گمراہ کرتے ہیں بلکہ ملکی پالیسی سازی پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔
یہ مسئلہ عوامی صحت کے مسائل پر بھی براہ راست اثر ڈال رہا ہے۔ پولیو ویکسین سے متعلق افواہوں اور جعلی بیانات نے ویکسینیشن مہمات کو نقصان پہنچایا اور وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کو متاثر کیا۔ یہی رجحان کووڈ-19 وبا کے دوران بھی دیکھا گیا، جہاں ویکسینز اور احتیاطی تدابیر سے متعلق غلط معلومات نے عوام کو کنفیوژن کا شکار کیا اور حکومتی اقدامات کو نقصان پہنچایا۔
سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے نفسیاتی اثرات بھی سنگین ہیں۔ عوام، خاص طور پر نوجوان اور دیہی آبادی، جو خبروں اور معلومات کے لیے زیادہ تر سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، گمراہ کن اور سنسنی خیز معلومات سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ معلومات بے چینی، عدم تحفظ، اور مایوسی کو بڑھا دیتی ہیں، جو عوام کے عمومی رویے پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔
پاکستان میں ان مسائل سے نمٹنے کیلئے تصدیقی اقدامات اور میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ وہ معلومات کی سچائی کو پرکھ سکیں اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والے ہر دعوے پر یقین نہ کریں۔ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں میڈیا لٹریسی کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل ان مسائل سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔
حکومت کو بھی اس ضمن میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور دیگر متعلقہ ادارے سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کر رہے ہیں، لیکن ان کوششوں کو مزید جامع اور غیر جانبدار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آزادیٔ اظہار اور ذمہ داری کے درمیان توازن قائم رکھا جا سکے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جہاں عوامی، مذہبی، اور سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ یہ پلیٹ فارم جھوٹے پروپیگنڈے، نفرت انگیز مواد، اور غیر مصدقہ معلومات کے پھیلاؤ کیلئےاستعمال ہو رہے ہیں، جس سے نہ صرف افراد کی عزت و وقار متاثر ہو رہی ہے بلکہ معاشرتی توازن اور امن و امان کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
حکومت کو اس بڑھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کیلئےسنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ صرف بیانات اور عارضی پالیسیوں پر اکتفا کافی نہیں ہوگا۔ سخت قوانین بنانا اور ان کا غیر جانبدارانہ اطلاق کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ قانون سازی ایسی ہو جو تمام طبقوں پر برابر لاگو ہو اور کسی بھی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے۔ اگر حکومت اس معاملے کو نظرانداز کرتی رہی تو معاشرتی اخلاقیات مزید زوال پذیر ہو جائیں گی، اور معاشرتی بگاڑ کو درست کرنا شاید ناممکن ہو جائے۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت اور عوام مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں تاکہ سوشل میڈیا ایک مثبت اور تعمیری پلیٹ فارم کے طور پر کام کر سکے۔