2011 میں جب خلائی شٹل ’ایٹلانٹس‘ امریکہ کے کینیڈی سپیس سینٹر کے رن وے پر آ رُکی تو یہ ایک 30 سالہ خلائی پروگرام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے لیے ایک بڑے سردرد کا آغاز بھی تھا۔
’ایٹلانٹس‘ کا متبادل تیار کیے بغیر امریکہ کے پاس اپنے خلابازوں کو مدار میں بھیجنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے سابقہ حریف روس کی مدد حاصل کرے اور روسی ’سویز کیپسول‘ کے ذریعے خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن تک بھیجے جس کے لیے فی سیٹ آٹھ کروڑ ڈالر الگ سے ادا کرنا پڑتے۔
بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات بہت غیر معمولی تھی کہ امریکہ جیسا ملک جس نے چاند پر سب سے پہلا خلاباز اُتارا، ہبل ٹیلی سکوپ بنائی اور ایک انتہائی دیوہیکل خلائی سٹیشن تیار کیا، اب اسے سرد جنگ کے اپنے حریف روس کے 45 سال پرانے خلائی جہاز کا سہارا لینا پڑ رہا تھا۔
2014 میں کریمیا پر روس کے حملے کے بعد امریکہ اور روس کے دوطرفہ تعلقات خراب ہوئے تو اس احساس کو روسی نائب وزیر اعظم دمتری روگوزن کی جانب سے جاری کردہ سوشل میڈیا بیانات نے مذید بڑھاوا دیا۔
امریکہ کی جانب سے ٹیکنالوجی برآمدات پر پابندی کے جواب میں روسی وزیراعظم نے ازراہ طنز لکھا کہ ’ہماری خلائی انڈسٹری کے خلاف پابندیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد میں مشورہ دوں گا کہ امریکہ اپنے خلابازوں کو آئی ایس ایس (انٹرنیشنل سپیس سٹیشن) تک بھیجنے کے لیے ٹرامپولین (بچوں کے کھیلنے اور چھلانگیں لگانے کے لیے استعمال ہونے والا سپرنگ بورڈ) کا استعمال کرے۔
انھوں نے اپنے اس پیغام میں ایک ٹرامپولین کی تصویر بھی لگائی جس پر ناسا کا بیج لگا ہوا تھا۔
لیکن دوسری جانب ناسا نے اپنا ایک طویل المدتی پروگرام مرتب کیا ہوا تھا جس کا نام ’کمرشل کریو پروگرام‘ تھا اور 13 سال بعد بوئنگ کمپنی کے ’سٹار لائنر‘ خلائی جہاز کی شکل میں یہ منصوبہ اب مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن اس منصوبے اور بوئنگ کمپنی کی ساکھ کا دورومدار اب ایک کامیاب ٹیسٹ پرواز پر ہے جو رواں ہفتے سوموار کے دن طے شدہ وقت پر روانہ نہ ہو سکی اور اسے 24 گھنٹے کے لیے مؤخر کر دیا گیا۔
میکینا ینگ واشنگٹن ڈی سی میں سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایرو سپیس سکیورٹی پروجیکٹ کے ساتھ وابستہ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’یہاں تک پہنچنا ایک طویل سفر تھا۔
’اگرچہ ہمارا ریکارڈ اچھا ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلا ایک مشکل جگہ ہے اور یہاں کامیاب ہونا آسان نہیں ہے۔
سی سی پی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ناسا اپنے خلائی جہاز ڈیزائن کرنے اور تعمیر کرنے کے بجائے کمرشل آپریٹرز سے سیٹیں خریدے۔ یہ بالکل ہوائی جہاز میں سیٹ خریدنے جیسا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس ایک سیٹ کے ریٹرن ٹکٹ کی قیمت پانچ کروڑ ڈالر سے زائد ہے اور اس ایک جہاز کی تیاری میں ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر لگ جاتے ہیں۔
پانچ ممکنہ تجارتی خلائی جہازوں کی ابتدائی ترقی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے بعد، ناسا نے 2014 میں اس کو بوئنگ کے سٹارلائنر اور سپیس ایکس کے کریو ڈریگن تک محدود کر دیا۔
2019 کے آخر تک دونوں خلائی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ دکھائی دیا۔
اس کے بعد اس ہی سال دسمبر میں پہلی سٹارلائنر آزمائشی پرواز ناکامی کا شکار ہو گئی۔ مزید جانچ کے دوران بوئنگ کے خلائی شٹل میں مسائل کی نشاندہی ہوئی۔
بالآخر سپیس ایکس نے مئی 2020 میں اس وقت برتری حاصل کر لی جب اس کا پہلا خلائی شٹل کریو ڈریگن ناسا کے خلابازوں کامیابی سے مدار میں لے گیا۔
دوسری جانب، سٹارلائنر کے خلابازوں بیری ولمور اور سنی ولیمز کو بین الاقوامی خلائی سٹیشن جانے کے لیے مزید چار سال انتظار کرنا پڑا۔ بوئنگ کا دعویٰ ہے ان کا خلائی کیپسول دوسروں کے مقابلے میں بہت جدید ہو گا۔
بوئنگ کی سٹارلائنر ویب سائٹ کسی گاڑی کے ساتھ دیے گئے کتابچے کی طرح ہے جس میں اس کے کمرشل پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ دوبارہ استعمال کیے جانے والے سپیس کرافٹ میں جدید کروز کنٹرول، درست سمت کا تعین کرنے سے متعلق سافٹ ویئر اور اس کے اندرونی حصے کے کشادگی شامل ہے۔ اس کیپسول میں عملے کے سات اراکین بیٹھ سکتے ہیں لیکن ناسا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد اب یہ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن تک چار افراد کو پہنچا سکے گا۔
بوئنگ کی جانب سے نئے نیلے رنگ کے سپیس سوٹس بھی بنائے گئے ہیں جو ڈریگن مونوکروم ڈیزائن سے بہت مختلف ہیں۔ یہ مختلف سائز میں موجود ہیں اور خلابازوں کو زیادہ آرام اور لچک فراہم کرتے ہیں۔ ینگ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے بہت زیادہ وقت، ناسا کے پیسے اور اپنے پیسے بھی خرچ کیے ہیں تاکہ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ کریو کو حفاظت اور کامیابی کے ساتھ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پہچانا ایک بڑی کامیابی ہو گی اور اس سے یہ پتا چلے گا کہ سارا پیسہ، وقت اور کوشش رائیگاں نہیں گئی۔‘
بوئنگ اور سپیس ایکس کے پہلے صارف یعنی ناسا کے لیے دو کمرشل کمپنیوں کی جانب سے خلا تک دو مختلف ایئرکرافٹس میں فلائٹ خلا تک رسائی یقینی بناتی ہے۔ اگر کسی ایک سپیس کرافٹ کو گراؤنڈ کرنا بھی پڑے تو دوسرا موجود ہو گا۔
پلینیٹری سوسائٹی کے سینیئر ایڈیٹر جیسن ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’ناسا کو ہمیشہ سے دو ایسی کمپنیوں کی ضرورت تھی جو اس کی خلا تک رسائی ممکن بنائے، لیکن اس وقت یہ ایک بڑا سوالیہ نشان تھا کہ یہ کمپنیاں ایسا کرنے میں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔ یہ ناسا کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے کیونکہ یہ اس پالیسی کو ٹھیک ثابت کرتی ہے جو انھوں نے دو دہائیوں پہلے اپنائی تھی۔
اس مقابلے کے باعث ایجنسی اور دیگر صارفین کے لیے قیمتیں کم ہو جائیں گی جس سے انسانوں کے خلا میں کمرشل آپریٹرز کے ساتھ سفر میں اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔